12 اگست ، 2022
صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ سیاستدان ایک میز پر نہیں بیٹھ رہے، ان کو اکٹھا بٹھانے کی ضرورت ہے، مجھے کوئی کامیابی نظر آئی تو ضرور کہوں گا کہ ایک میز پر بیٹھ جائیں، صدرکی حیثیت سےخود اکٹھا نہیں کرسکتا صرف کہہ ہی سکتا ہوں۔
لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ بڑھتی خلیج پر پریشانی ہے، اس کو کم ہوناچاہیے، فارن فنڈنگ میں ہم حساب کتاب رکھنے پر پکڑے گئے، پارٹی سیکرٹری کے طور پر اسد قیصر اور سیما ضیا کو اکاؤنٹس کھولنے کا کہا تھا۔ امریکی قانون کے مطابق فنڈنگ کیلئے کمپنی بناناہوتی ہے، امریکا اور کینیڈا میں قانون کے مطابق کمپنی کھلونے پر کہا کہ پرائیویٹ کمپنی ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو کہتا رہتا ہوں چیزیں ٹھیک نہیں ہیں، پریشان ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ خلیج بڑھتی جا رہی ہے، اس کوکم ہوناچاہیے، سیاستدانوں کو کلاس روم کی طرح گھنٹی بجا کر تو بٹھایا نہیں جاسکتا۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ جتنی ملاقات اور فون پر شہباز شریف سے گفتگو ہوئی اتنی بطور وزیر اعظم عمران خان سے نہیں ہوئی، عمران خان میرے لیڈر اور میرے دوست ہیں ان سے واٹس ایپ پر رابطہ رہتاہے۔
عارف علوی نے کہا کہ موجودہ حکومت کی 85 سمریاں آئیں، صرف چار یا پانچ کو روکا تھا، تمام پارٹیزکو مثبت اور اہم معاملات پر افہام و تفہیم پیدا کرنا چاہیے، سیاستدانوں کو سمجھاتا رہا ہوں کہ فوج کو زیربحث مت لایا کریں، فوج ملکی سلامتی کی ضامن ہے، فوج کو متنازع نہیں بنانا چاہیے، دہشتگردی کےخلاف جنگ جیتنا فوج کا ہی کام تھا،ان کا احترام کرناچاہیے۔
صدر عارف علوی نے مزید کہا کہ چند ماہ قبل تو تمام پارٹیاں جلدالیکشن کی بات کررہی تھیں،اب رائے بدلی ہے، الیکشن اچھاحل ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر طےکریں کہ کب الیکشن ہونے چاہئیں، عمران خان کی حکومت جانے پر پارٹی کے دوستوں نے بہت مشورے دیے تھے، میرےپاس تو ایک ہی آئینی بندوق ہے، اس سے چڑیا مار سکتا ہوں یا اس پر میزائل لگالوں، ملک کا آئینی سربراہ ہوں اور تمام ادارے میرے ہیں، سب کااحترام ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ عدلیہ اورآرمی چیف کی تقرری پربھی باتیں ہورہی ہیں، عدلیہ میں ججزکی تقرری پرچیف جسٹس نےکہا کوئی معیار ہونا چاہیے اور میں اس کاحامی ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ کیا سب کو ایمنسٹی دے کر کلیئر کر دیا جائے؟ پاکستان میں منیجمنٹ کے ایشو پر عمران خان کو بتاتا رہا ہوں لیکن ان کا ایک اپنا مؤقف تھا۔