کیا قریشی صاحب کی گدی پر پیرنی بیٹھےگی؟

قریشی خاندان کے لیے یہ تاریخی لمحہ ہے کیونکہ خاندان کی پہلی عورت سیاست میں قدم رکھ رہی ہے۔ فوٹو فائل
قریشی خاندان کے لیے یہ تاریخی لمحہ ہے کیونکہ خاندان کی پہلی عورت سیاست میں قدم رکھ رہی ہے۔ فوٹو فائل

پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو آج سے این اے 157 میں انتخابی مہم شروع کر  رہی ہیں۔

یوم عاشورکے احترام میں قریشی صاحب نے بیٹی کی یہ مہم کچھ روز کے لیے آگے بڑھا دی تھی جو اب خاندان کی پوری توانائیوں کےساتھ بحال کی جا رہی ہے۔ قریشی صاحب نے کہا ہے کہ وہ خود بھی مہم میں حصہ لیں گے، بیٹا زین بھی شریک ہوگا، بیٹی کا تو الیکشن ہی ہے، وہ کیوں نہ جلسے کریں؟

قریشی خاندان کے لیے یہ تاریخی لمحہ ہے کیونکہ خاندان کی پہلی عورت سیاست میں قدم رکھ رہی ہے۔ بیٹے کی نیّا پار لگانے کے بعد یعنی الیکشن جتوانے کے بعد قریشی صاحب کی کوشش ہے کہ اس کی خالی کردہ نشست پر دوسری بیل بھی خیر سے منڈیر چڑھے۔

ویسے یہ بھی خوب ہے کہ موروثی سیاست میں باپ نہیں تو بیٹا ورنہ بیٹی مگر جب بات پیری مریدی کی ہو تو پیر صاحب کی گدی کے لیے اولادنرینہ ہی ہونی چاہیے۔

شاہ محمودقریشی جنوبی پنجاب میں موروثی سیاست کا جیتا جاگتا کردار ہیں، ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی سینیٹ کے رکن رہے، وہ آمر وقت جنرل ضیا الحق کے قریبی ساتھی تصورکیے جاتے تھے اور یہی تعلق تھا کہ 1985 سے 1988 تک انہیں گورنرپنجاب کا عہدہ سونپاگیاتھا۔

وائس چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کا تعلق صوفی گھرانے سے ہے، ان کے والد بہاءالدین زکریا کے مزارکے گدی نشین تھے اور  یوں علاقے میں ان کا اثر و رسوخ نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی بنیادوں پر بھی ہے۔ چونکہ قریشی صاحب زمیندار بھی واقع ہوئے ہیں تو سمجھیں تین قوتیں ایک جگہ جمع ہوگئیں اور اس طرح قریشی صاحب عام الفاظ میں الیکٹیبل کہے جاسکتے ہیں۔

کیا قریشی صاحب کی گدی پر پیرنی بیٹھےگی؟

اسی پس منظر کی بنیاد پر شاہ محمودقریشی صاحب نے 1985 میں ملتان سے صوبائی اسمبلی کی نشست غیر جماعتی بنیادوں پر بھی جیت لی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ پھروہ سرکاری کہلائی جانے والی پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ یہ اس سیاسی سفرکا آغاز تھا جو جلد ہی انہیں میاں نوازشریف کی قربت میں لے گیا اور نون لیگ کا حصہ بنا دیا۔ موسم بدلا تو 8برس بعد پیپلزپارٹی میں پہنچادیا۔

دو عشرے بعد وہ وقت بھی آیا جب قریشی صاحب وزارت خارجہ چھننے پر پیپلزپارٹی سے ناراض ہوئے اور جن آصف زرداری کی صدارت اوریوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ میں وزیر خارجہ رہ چکے تھے، اب اسی پیپلزپارٹی کو زرداری لیگ کہہ کر طلاق دی اور تحریک انصاف کو پیارے ہوگئے۔

ستارے موافق ٹہرے، یہاں وہ وزارت خارجہ مل گئی جو  پیپلزپارٹی نے چھین کر انہیں واٹر اینڈ پاور کے قلمدان میں جھونکنے کی کوشش کی تھی۔ یہ وزارت اوروں کے لیے لاکھ پرکشش ہو مگر یہ کسی پاکستانی وزیر کو ہلیری کلنٹن کے سر سے سر ٹکرانے کا موقع تو نہیں دیتی۔ یہ کسی کو زین قریشی جیسے ذہین بیٹے کو جان کیری جیسے سرکردہ ڈیموکریٹ کے دفتر میں فیلو کی حیثیت سے کام کرنے کی آسامی تو  پیدا نہیں کرتی۔

کیا قریشی صاحب کی گدی پر پیرنی بیٹھےگی؟

شاہ محمود قریشی نے اچھاہی کیا جو ایسی پیپلزپارٹی سے جان چھڑائی اور پی ٹی آئی کے ہولیے۔ آخر پیپلزپارٹی تو امریکا سے پینگھیں بڑھا رہی ہےجبکہ قریشی صاحب نے اپنے بیٹے کو غالبا اس لیے جان کیری کے دفتر میں کام کے لیے بھیجا تھا کہ وہاں رہ کر جانیں کہ امریکی حکومت پاکستان کے خلاف سازشیں کیسے کرتی ہے؟

ہلیری کلنٹن کے سر سے اپنا سر بھی اسی مقصد کے تحت ٹکرایا ہوگا کہ اس دور کی وزیر خارجہ کا دماغ پڑھ لیں تاکہ جب مستقبل میں امریکی وزارت خارجہ کا ڈونلڈ لو جیسا چھوٹا موٹا افسر کوئی ایسی ویسی حرکت کرے تو عمران خان کو کان میں بتاسکیں کہ رجیم چینج ہونے والا ہے۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو شاہ محمود قریشی نے پنجاب میں گھرگھرڈھونڈا ہوگا مگر کوئی ایک ایسی لڑکی یا عورت نہیں ملی ہوگی جو سیاست میں قدم رکھ سکے ، ایسی لڑکی جو صو الیکشن لڑسکے اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے لیے پھر وزیر خارجہ یا وزیراعظم بننے کے لیے اپنی راہ سے کانٹیں چُن سکے۔

یقین سے یہ بات اس لیے بھی کہی جاسکتی ہے کہ خود شاہ محمود قریشی نے چند روز پہلے کہا تھاکہ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے اس لیے خاتون ہی کو ٹکٹ دیاجانا چاہیے تھا، یہ تو پنجاب خصوصاً ملتان کی خواتین کی غلطی ہے کہ ان میں کوئی بھی ماہ نور جیسی باہنر نہیں جسے ٹکٹ ملتا،  آخر کسی کو تو الیکشن لڑنا ہی تھا تو گھر بیٹھی مہربانو میں کیا برائی تھی؟ بحالت مجبوری قرعہ فال اسی کے نام نکال دیا۔

کیا قریشی صاحب کی گدی پر پیرنی بیٹھےگی؟

ویسے بھی بیٹی شادی ہو کے کراچی گئی تھی، اس شہر میں عظیم صوفی بزرگ تو تھے مگر کسی پیر کی سیاسی گدی تھی نہیں جو کراچی سے الیکشن جتوایا جاتا۔ ایسے میں بیٹی کو ملتان بلانے میں کیا ہرج تھا؟ کوئی ہل بیل جوتنا بھی نہیں پڑے۔

انتخابی مہم سے متعلق قریشی صاحب پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ مہر بانو صاحبہ صرف زنانہ مہم چلائیں گی جبکہ مردانہ حصے میں محاذ خود قریشی صاحب اور زین بیٹا سنبھالیں گے، یہ اس لیے نہیں کیا جا رہا کہ کہیں مہر بانو کا سیاسی طلسم نہ ٹوٹ جائے، وہ قریشی صاحب جو بلاول کو بے بی کہہ کر پکارتے ہیں ان کے اپنے گھر سے سیاسی بے بی نہ نکل آئے۔ ایسا ہرگز نہیں۔

قریشی صاحب نے یہ تو علاقے کی روایات کی خاطر کیا ہے اور  وہ بھی مذہبی ٹچ دیے بغیر۔ اب یہ پتا نہیں کہ مہر بانو صاحبہ منتخب ہوئیں تو وہ اسمبلی بھی جائیں گی یا نہیں کیونکہ وہاں تو مرد ہوں گے جیسا کہ اس انگریزی نیوز چینل میں تھے جہاں مہر بانو کو صحافت کے گُر سکھانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

ناقص عقل ہے اس لیے شاید یہ تُک بھی سمجھ نہیں آئی کہ اپنی بیٹی مردوں میں جلسے نہ کرے اور خود قریشی صاحب مردوں بھرے پنڈال میں خواتین کے بال مونڈھتے پھریں اور  آجو باجو بیٹھے افراد ان خواتین سے رقم بھی جمع کرتے رہیں۔ یہی نہیں، خواتین ایک ایک کرکے آئیں، کرسی پر براجمان پیر صاحب کے گھٹنوں اور جوتوں کو ہاتھ لگائیں تو درست، بیٹی مجمع میں جائے تو غلط۔

وہ الگ بات کچھ گھمنڈی پی ٹی آئی کے کارکنوں کی عقل گھاس چرنے گئی تھی جو انہوں نے شاہ محمود قریشی اور ان کی بے مثل بیٹی مہر بانو کے خلاف احتجاج کرکے دل کی بھڑاس نکال لی۔ ان کارکنوں کو پتا ہی نہیں کہ پیرجی کی پیروں والی گدی بیٹی کو ملے نہ ملے، موقع ملتے ہی سیاسی گدی کی وراثت سونپنا صریحا جائز ہے، باقی بچیں مرید خواتین تو وہ پیروں کو ہاتھ لگائیں، لٹ کٹوائیں، پیسے جمع کرائیں، ووٹ ڈالیں اور گھر جائیں۔

مزید خبریں :