17 اگست ، 2022
گزشتہ رات نون لیگ لندن اور نون لیگ اسلام آباد کے درمیان شہباز شریف حکومت کی جانب سے معاشی معاملات سے نمٹنے کے معاملے پر ایک غیر معمولی تنازع پیدا ہوا جس کی وجہ سے میاں نواز شریف پارٹی کے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ وہ اس اجلاس میں لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک تھے۔
نون لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے پر مباحثہ جاری تھا، اور میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار قیمتیں بڑھانے کے خلاف تھے۔ مفتاح اسماعیل اور شاہد عباسی کی رائے تھی کہ ملک کی معاشی صورتحال بہت ہی نازک ہے اور معاملات احتیاط سے چلانے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد کے ایک لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ معاشی فیصلوں کے حوالے سے حکومت پر نون لیگ لندن کا پریشر نہیں ہونا چاہئے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ خراب نہ ہو۔ نون لیگ لندن کو شکایت تھی کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر معاہدہ کرسکتی تھی لیکن اس وقت مشورہ دیا گیا کہ یا آپ پاکستان آجائیں اور ذمہ داری سنبھالیں یا پھر اسلام آباد کو اپنے فیصلے کرنے دیں۔
اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک واضح میکنزم موجود ہے اور حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور اس میکنزم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا مطلب سنگین مسائل میں مبتلا ہونا ہوگا۔ اس مباحثے کے بعد، نواز شریف یہ کہہ کر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے کہ وہ حکومت کے ایسے کسی فیصلے کا حصہ نہیں بن سکتے۔
ایسا مباحثہ بمشکل ہی پہلے کبھی دیکھا گیا ہو۔ ایک ذریعے کے مطابق، نون لیگ لندن کے ساتھ بات چیت میں جو زبان استعمال کی گئی وہ نامناسب تھی اور یہی وجہ تھی کہ نواز شریف ناراض ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز نے اپنی گزشتہ رات کی ٹوئٹ میں کھل کر کہا کہ میاں نواز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے حکومت کے فیصلے کی سخت مخالفت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ ایک پیسے کے اضافے کی بھی حمایت نہیں کریں گے اور اگر حکومت کی کوئی مجبوری ہے تو وہ اس فیصلے کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مریم نے مزید کہا کہ نواز شریف اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ اگرچہ مریم نے اس مباحثے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ جو کچھ گزشتہ رات ہوا وہ نون لیگ کے اندر معاشی صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات ہیں۔
اس سے قبل کی گئی ایک ٹوئیٹ میں مریم نے اضافے کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کریں گی۔ در اصل یہ دو حلقوں کے درمیان لڑائی ہے جن میں سے ایک حلقہ اسحاق ڈار کا تو دوسرا مفتاح اسماعیل کا ہے اور یہ گروپ اس وقت سے قائم ہوگیا ہے جب سے مفتاح اسماعیل نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا ہے۔
معیشت کے حوالے سے نواز شریف عموماً اسحاق ڈار کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں جبکہ شہباز شریف مفتاح اسماعیل اور ان کے معیشت سے نمٹنے کے طریقوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور انہیں شاہد خاقان عباسی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا اور اس کی وجہ وہ قیمت ہے جس پر تیل انٹرنیشنل مارکیٹ سے خریدا گیا ہے۔
یہ انتباہ دیا گیا ہے کہ اگر حکومت نے اضافہ نہ کیا ہوتا تو جن معاملات پر حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اتفاق ہوا ہے وہ سب برباد ہو جاتا۔ معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچاتی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کا انتظار کر رہا ہے تاکہ پاکستان کیلئے بیل آئوٹ پیکیج بحال ہو سکے، آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت تیل کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی یا پھر پیٹرولیم لیوی کے معاملے پر کسی طرح کا انحراف پاکستان کو سنگین معاشی مسائل میں مبتلا کر سکتا ہے۔