21 اگست ، 2022
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
مرزا غالب کے اس شعر میں ہمارے قومی ہیرو عمران خان کی سیاست کے مخمصے سمجھ آسکتے ہیں۔
ہائبرڈ (دوغلے) نظام کے سرکس کا طربیہ اب سانحہ بنتا دکھائی پڑرہا ہے۔ لاڈلا آنکھ کا تارا نہ رہا تو مشکلوں نے ایسا آن گھیرا ہے کہ ہر کل اُلٹی پڑتی نظر آرہی ہے۔ تیشہ اٹھانے کی سکت نہیں تھی تو پہاڑ سے ٹکر کیوں لی؟ جب شیخ مجیب الرحمان اور عوامی لیگ ملٹری آپریشن کے خلاف کھڑے ہوئے تو عوام نے تاریخ کا پانسہ پلٹ دیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی تو انہوں نے بڑھ کر پھندہ قبول کیا اور ہزاروں جیالے برس ہا برس قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے جمہوریت اور شہادت کے پروانے بن گئے۔
جب نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگی تو خان عبدالولی خان اور میر غوث بخش بزنجو بہادری سے کھڑے رہے اور سرخ رو ہوئے۔ جب دوبار منتخب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کا نشانہ بنیں تو وہ خطرے کو بھانپتے ہوئے بھی دہشت گردوں کو للکانے سے باز نہ آئیں اور جب تین بار کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو اقامہ میں تاحیات نااہل کیا گیاتو وہ بیٹی کے ہمراہ قید کاٹنے اور پیشیاں بھگتنے کے لئے خندہ پیشانی سے کھڑے رہے۔ جن جماعتوں کو چوروں اور ڈاکوئوں کی جماعتیں قرار دیتے ہمارے محترم خان صاحب نہیں تھکتے،ان جماعتوں کے بانیوں کی قربانیوں اور استقامت سے کچھ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کی طرح نواز لیگ بھی مقتدرہ ہی کی پیداوار تھی، لیکن بتدریج دائمی سرپرستوں کی چھتر چھایا سے آزاد ہوتی چلی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اور پیپلزپارٹی بھی باہم سیاسی چپقلش میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی رہیں اور ہورہی ہیں۔ لیکن عمران خان کی سیاسی ٹریجڈی یہ ہے کہ متوسط طبقے کی وسیع تر حمایت کے باوجود وہ اپنے زور پر جمہور کی خود مختاری کا پرچم بلند کرنے سے نہ صرف ہچکچارہے ہیں بلکہ ’’نیوٹرلز‘‘ کی سرپرستی کی بحالی کے لئے گڑ گڑارہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مڈل کلاس کا وہ غیر جمہوری اور آمریت نواز بیانیہ ہے جو یہ سیاسی طبقے کے خلاف دہائیوں سے استعمال کرتی رہی ہے۔
گویا ان کا ایجنڈا حقیقی جمہوریت کی جانب گامزن ہونے کا نہیں آمرانہ قوتوں سے سمجھوتے کا ہے جس کا فی الوقت موقع محل نہیں۔ وہ کبھی اپنے حربی حلقہ اثر کو متاثر کرنے کیلئے ریڈ لائنز کراس کرنے کا رسک لیتے ہیں تو کبھی پائوں پڑنے کی منت سماجت۔ نتیجہ:ٹائیں ٹائیں فش! جس کا تماشہ ہم گزشتہ دنوں میں عمران خان کے چیف آف اسٹاف، جو ہر ایک کو اشتعال دلانے کے ماہر ہیں، کے نروس بریک ڈائون ہونے کی صورت دیکھ چکے ہیں۔ غالباً عمران خان کے اضطراری ردعمل کے پیچھے وہ خوف پنہاں تھا کہ کہیں اُنہیں اور ان کی جماعت کو اس کیس میں ملوث نہ کرلیا جائے اور بدقسمتی سے انہوں نے آبیل مجھے مار کی دعوت دے کر اسی مبینہ ’’سازش‘‘ کی تکمیل کی ہے جس کا وہ رونا رورہے ہیں کہ تحریک انصاف اور فوج کو لڑایا جائے۔
بھولی بسری یادوں میں گم کپتان اعتراف جرم کرتے کیوں بھول رہے ہیں کہ ان کی اپوزیشن ان پر ’’سلیکٹڈ‘‘ ہونے کا الزام لگاتی تھی وہ خود اسے نہ صرف قبولیت بخش رہے ہیں بلکہ اسی ایک صفحہ کی بحالی پہ از سر نو غور کرنے کیلئے رحم کی اپیلیں بھی کررہے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مڈل کلاس کا وہ حلقہ جو ان کا بڑا داعی ہے ہمیشہ سے پروملٹری رہا ہے اور وہ اسے اکسا کر فوجی قیادت کے خلاف سڑکوں پر نہیں لاسکتے۔ نہ ہی عوامی دھنوں پہ ناچتے گاتے شائقین ریاست مدینہ کے احیا پہ راغب ہوسکتے ہیں اور نہ افواج سے جڑی قوم پرستی کے خلاف سینہ سپر ہوسکتے ہیں۔
دراصل عمران خان اور ان کی تحریک کی تین بڑی قوتیں ان کے گلے پڑگئی ہیں۔ اول، مڈل کلاس کا جو حلقہ ان کا حامی ہے، اس کا بیانیہ ہی سیاست مخالف ہے اور وہ عمران خان کی کرشمہ سازی کے اور پرکشش پہلوئوں کے علاوہ اس لئے بھی قائل ہیں کہ ان کا بت جمہوری سیاست کے خلاف گھڑا گیا تھا اور وہ جمہوری سیاست کے گورکن کے طور پر سامنے لائے گئے تھے۔ دوئم، شوکت خانم کے جس خیراتی ماڈل کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں سیاسی فنڈ جمع کرنے کی زبردست مثال قائم کی، اس کے لبادے میں بڑے بڑے مفاد پرستوں کے ہاتھ ان کی مالی باگ ڈور چلی گئی۔ خیرات اور سیاست کے فنڈز گڈ مڈ ہوگئے اور حساب کتاب خراب ہوگیا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے سے جو پی ٹی آئی کی مالیاتی خورد برد، بے ضابطگیوں اور ممنوعہ فنڈز کے گند کا ٹوکرا عمران خان کے سر پہ آن گرا ہے اس سے ان کا مالی شفافیت کا بت پاش پاش ہوگیا ہے۔ اوپر سے توشہ خانہ کے تحائف میں خورد برد، تحائف کا کوڑیوں کے مول حصول اور تحائف فروشی سے مالی فوائد حاصل کئے جانے اور پھر آمدنی سے چھپائے جانے کا سنجیدہ کیس، عمران خان کی صداقت و امانت کا بھانڈہ پھوڑنے کے لئے کافی ہوگا اور وہ تاحیات نااہل قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کروانے میں وہ خود درخواست گزار تھے۔
اب اس کا حوالہ ہی خان صاحب کو نواز شریف کی سنگت میں دھکیلنے کے لئے ممد ہوگا۔ اسی لئے وہ اس سازش کا ذکر کررہے ہیں جو انہیں نواز شریف کے مقدر کا ساتھی بنانے کے لئے کی جارہی ہے۔ سوم، پرانے دور کی جماعتوں اور ان کے ابلاغ کی صلاحیتوں کے برعکس، عمران خان نے سوشل میڈیا کی دلدادہ نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کیا اور ان کے درجنوں ترجمان اس سوشل میڈیا کو اس راہ پہ گامزن کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کی نمائندگی شہباز گل بدرجہ اتم کرتے ہیں۔ گالی گلوچ، الزام تراشی، اسکینڈل بازی اور جانے کیا کیا مغلظات ان ناپختہ ٹرولز کا بڑا ہتھیار بن گئیں اور عمران خان اور ان کی تحریک نے ان کی بڑی پذیرائی کی۔ نتیجتاً اب تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس سے دو ہاتھ بڑھ کر مبینہ طور پر ’’قومی سلامتی کو ٹھیس پہنچانے‘‘ کا کیس بنتا نظر آرہا ہے۔
عمران خان نے فوجی مقتدرہ پر مسلسل وار کرنے کے بعد دوبارہ سے بندھن بحال کرنے کا جو غیر جمہوری راستہ اختیار کیا تھا وہ پٹ گیا ہے۔ ان کے سامنے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ جمہوریت کے استحکام، آئین کی حکمرانی اور سول ملٹری تعلقات کو سویلین حکمرانی کے لئے از سر نو تربیت دینے کے لئے پی ڈی ایم اور پی پی پی کو ان کے 26 نکاتی ایجنڈے پہ بات چیت کی دعوت دیں اور قومی اسمبلی میں واپس جائیں۔ آئندہ انتخابات پہ اتفاق رائے پیدا کرنے میں ہاتھ بٹائیں اور جمہوری راستہ اختیار کریں۔ ان کی اور ان کی جماعت کی بچت اسی میں ہے!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔