سیلاب، قدرتی آفت یا سنگین غفلت

عوام کا غم و غصہ اس بات پر بھی نظر آیا کہ وزراء اور بڑے زمینداروں اور بااثر وڈیروں کی زمینوں کو بچانےکے لیے پانی آبادیوں کی طرف چھوڑ دیا گیا۔ فوٹو فائل
عوام کا غم و غصہ اس بات پر بھی نظر آیا کہ وزراء اور بڑے زمینداروں اور بااثر وڈیروں کی زمینوں کو بچانےکے لیے پانی آبادیوں کی طرف چھوڑ دیا گیا۔ فوٹو فائل 

غیر معمولی بارشوں کی پیشگی اطلاعات اور میڈیا پر  روزانہ کی بنیاد پر معلومات فراہم کی جاتی رہیں لیکن سندھ میں حکومت اور انتظامیہ تماش بین نظر آئی۔

جولائی سے جاری موسمیاتی شدت کے بعد ماہ اگست کے وسط سے شدت سے بارشوں، طوفان اور سیلابی صورت کے خدشات اور پیشگوئیاں کی جاتی رہیں، صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو خاص طور پر ان پیشگی ہدایات کا حصہ بنایا گیا، میڈیا بھی ان تمام خدشات اور پیشگوئیوں کو کم زیادہ کرکے سامنے لاتا رہا۔ 

حیرت انگیز طور پر کئی اضلاع کے ڈوب جانے، انسانی جانوں کے ضیاع اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہو جانے کی اطلاع وزیراعلیٰ سندھ کے دوروں سے پتہ چلی۔

ضلعی ڈپٹی کمشنرز، میونسپل سربراہ، اعلیٰ افسران سمیت دیگر اداروں کی سنگین غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے سندھ کے کئی اضلاع میں بارشوں اور سیلابی پانی نے تباہی پھیلادی۔ اس تمام عرصے میں جو وسط اگست سے شروع ہوا اور اگست کے آخر تک رہا نے لاعلمی میں لوگوں کو بے بس کرکے ڈبو دیا۔  

عوام کا غم و غصہ اس بات پر بھی نظر آیا کہ وزراء اور بڑے زمینداروں اور بااثر وڈیروں کی زمینوں کو بچانےکے لیے پانی آبادیوں کی طرف چھوڑ دیا گیا۔ قیمتی جانوں کا ضیاع ، جانوروں کی ہلاکتوں، سامان بہہ جانا، پانی سےگھروں کا نقصان اور فصلوں کی تباہی عام آدمی کے لیے بڑا صدمہ ہے۔

اس بات کا تعین کیوں نہ کیا جائے کہ یہ بیڈ گورننس ہے کہ نہیں۔ تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور ان کے ماتحت افسران چاہے وہ اسسٹنٹ کمشنرز ہوں یا مختیار کار ان کی کارکردگی اور بروقت اقدامات کی تحقیقات کی جائیں کہ وہ کہاں تھے اورکیوں بروقت عوام کی مدد کے لیے اقدامات نہ کیےجا سکے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونےکے بعد تباہ حال مصیبت زدہ خاندانوں کی داد رسی کو کوئی سامان نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر عوامی لیڈروں، وزراء، ایم پی ایز اور دیگر بااثر افراد کے تکلیف دہ عمل نے عوام کو مزید دکھ پہنچایا۔

فلاحی اور سماجی تنظیموں نے اپنا کام شروع کردیا، وہ راشن، خوراک، ادویات، خیمے اور دیگر سامان متاثرین کو پہنچا رہے ہیں لیکن نقصانات کا حجم بہت زیادہ ہے اور کئی علاقے ایسےہیں جہاں اب تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔

ایسے میں حکومت سندھ اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کی قلعی کھل گئی جو اب تک امداد تو جمع کر رہے ہیں، فنڈز بھی جاری ہو رہے ہیں لیکن عوام اس مصیبت کے وقت میں سرکاری مدد سے محروم ہیں۔ 

ملکی تاریخ میں ایک اور  بدترین آفت کا ذکر ہوگا لیکن اس میں اس وقت کے حکمرانوں ، منتخب نمائندوں، سرکاری مشینری میں شامل بیوروکریسی و ضلعی انتظامیہ میں تعینات افسران کو ضرور شامل کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے اختیارات کے باوجود عام آدمی کی کوئی مدد نہیں کرسکے بلکہ ان کو نقصان پہنچانے میں آلہ کار بن گئے۔

اب دریائے سندھ انتہائی درجے کے سیلاب کی صورت حال سے دوچار ہونے جا رہا ہے، بندوں اور پشتوں کے مضبوط ہونے پر توجہ کی ضرورت ہے لیکن شاید وقت کافی گزر چکا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔