پنجاب حکومت کا عظیم الشان منصوبہ

لاہوریوں کو ہلے گلے اور رونق والے کھیلوں سے شدید محبت ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ دوبارہ دنیا کی بڑی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں، ہم ان میچوں کو دیکھنے جائیں اور لطف اندوز ہوں۔ دوسری طرف سکیورٹی کے نام پر جو کچھ شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے وہ بھی ایک لمبی کہانی ہے۔

 لاہور میں جب کبھی کرکٹ، ہاکی یا کسی اور کھیل کے میچ منعقد ہوتے ہیں تو قذافی اسٹیڈیم میں موجود دفاتر کے لوگوں کو آنے جانے میں جو مشکلات پیش آتی رہی ہیں، ان کا بیان ممکن نہیں۔کھیلوں کی کئی سیریز جب مہینوں جاری رہتی ہیں تو کام کا شدید حرج ہوتا ہے۔ یہ ساری مشکلات صرف قذافی ا سٹیڈیم تک محدود نہیں بلکہ پورے لاہور کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا رہا ہے۔ صبح کھلاڑیوں کا ہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم پہنچنا، دوپہر کو لنچ کرنے جانا اورواپس آنا اور شام کو دوبارہ ہوٹل واپسی یہ وہ چار مواقع ہوتے ہیں کہ جب پورے شہر کی ٹریفک روک دی جاتی تھی اور سڑکوں کے اِردگرد پردے آویزاں کر دیئے جاتے تھے تاکہ کوڑے کے ڈھیر پر ان کی نظرنہ پڑے۔

چوہدری پرویز الٰہی صاحب کی طرف سے 25 منزلہ کمپلیکس بنانے کا اعلان سنا تو دل کو عجیب طرح کی طمانیت، خوشی اور سرشاری حاصل ہوئی ، وہ اس لئے کہ اس کمپلیکس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ قذافی سٹیڈیم کے نزدیک بنایا جائے گا۔ اس میں کھلاڑیوں اور دیگر عہدیداروں کی رہائش کا انتظام ہو گا اور زیرِ زمین ٹنل کے ذریعے راستہ بھی بنایا جائے گا جس سے کھلاڑی اسٹیڈیم میں آ جا سکیں گے۔ یقیناً ایسی صورت میں سیکورٹی پر نہ کثیر رقم خرچ ہو گی نہ پولیس کی دوڑیں لگیں گی اور نہ شہر کا ناطقہ بند ہو گا۔

بچوں کی تربیت اور شخصیت سازی کے لئے کھیل بہت ضروری ہیں۔ موبائل اور کمپیوٹر تک مقید بچوں اور نوجوانوں کو کھیلوں کے میدان تک لانے کے لئے ایسی کاوشیں ضروری ہیں جو انہیں چیلنجز قبول کرنے اور دنیا میں پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے کی طرف راغب کریں۔ کھیلوں کی ترویج کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے نجی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی میٹنگ کا تذکرہ کر کے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ہر تعلیمی ادارے کے طالبعلم کو کھیلوں کے میدان تک رسائی دینے کی حکمتِ عملی بنائی جا رہی ہے۔

 ملکی و غیر ملکی کوچز کی خدمات اور کرکٹ کے علاوہ ہاکی، کبڈی اور دیگر کھیلوں کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنا بھی قابلِ تحسین ہے۔ پنجاب کے عظیم کھلاڑی جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا ان کو پرائیڈ آف پنجاب کے ایوارڈ سے نوازنا قابلِ فخر ہے۔ جب کسی کھلاڑی کو سراہا جاتا ہے تو نئی نسل کو یہ ان کی محنت بارآور آنے کا مثبت پیغام بھی دیا جاتا ہے جس سے ان میں محنت اور جدوجہد کرنےکا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ پنجاب کے فعال وزیر کھیل تیمور مسعود ملک صوبے میں کھیلوں کی جدید بنیادوں پر اصلاحات کے حوالے سے بہت پرعزم ہیں۔ حالیہ کامیاب تقریب ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کو اُجاگر کرتی نظر آتی ہے۔

حکومتِ پنجاب کو پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈز کا سلسلہ ہر شعبے تک پھیلا دینا چاہئے۔ پِلاک نے اس ایوارڈ کو پہلے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا اور ہر سال کئی افراد کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے ساتھ ایک لاکھ روپیہ دیا جاتا تھا۔ پھر 2017-18ء میں دو سالہ اسکیم بنائی گئی جس کے تحت تین لاکھ روپے دیئے جاتے تھے۔ اس وقت تک پنجاب کے ادب، شاعری، نثر، فلم، ٹی وی، آرٹ اینڈ کلچر کے مختلف شعبوں میں چودھری فخر زمان، افضل احسن رندھاوا، انور مسعود، گلوکار شوکت علی، غلام علی، اللہ دتہ لونے والا، ثریا ملتانیکر، شاکر شجاع آبادی، ڈاکٹر شہزاد قیصر، پاکستان پنجابی ادبی بورڈ، روزن گجرات، اسلم کمال، مصطفیٰ قریشی، بہار بیگم، انجمن، شاہد، عثمان پیر زادہ، عارف لوہار، ڈاکٹر اعجاز انور، سید افضل حیدر، ڈاکٹر شہباز ملک، ڈاکٹر حنیف چودھری، بابا نجمی، اقبال قیصر، ویر سپاہی، راشد حسن رانا، منیزہ ہاشمی سمیت 50لوگوں کو یہ ایوارڈ دیے جا چکے ہیں۔

پرویز الٰہی صاحب سے گزارش ہے کہ پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ کے حوالے سے پِلاک کی اسکیم کو دوبارہ شروع کرنے کے احکامات جاری کریں اور اس کے ساتھ پانچ لاکھ کی رقم مختص کی جائے تا کہ ادب، آرٹ اور کلچر کے شعبوں کے عظیم لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔ اب جبکہ قذافی سٹیڈیم کے نزدیک ایک ارب ڈالر سے 25 منزلہ کمپلیکس بنایا جائے گا جس میں پنجاب حکومت صرف 30 فیصد اور باقی 70 فیصد یو اے ای کی حکومت خرچ کرے گی تو یقیناً صوبے میں کھیلوں کے فروغ میں بڑی پیش رفت سامنے آئے گی۔ چوہدی پرویز الٰہی صاحب نے پنجاب کو 1122، پِلاک اور اس طرح کے کئی منصوبے دیے جو دور رَس نتائج کے حامل ہیں۔ پِلاک جیسے ادارے دوسرے صوبوں میں فوری طور پر قائم ہو گئے تھے لیکن پاکستان میں نصف صدی کے بعد یہ ادارہ ان کی کوششوں سے وجود میں آیا۔ 25 منزلہ کمپلیکس بھی ایک ایسا ہی عظیم الشان منصوبہ ہے جو کھیلوں کے فروغ میں سنگِ میل ثابت ہو گا۔ رب کرے یہ جلد پایۂ تکمیل کو پہنچے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔