بلاگ
Time 26 ستمبر ، 2022

حکومت اور عمران خان کے آپشنز

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان تصادم کی سیاست کا جو راستہ اختیار کر رہے ہیں ، اس سے انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے کیونکہ آج کے حالات 2014 ء اور 2016ء سے بہت مختلف ہیں لیکن پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کی حکومت عمران خان کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں کیونکہ ان کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر ہے اور ان کا سیاسی دبائو حکومت کے لیے پریشان کن رہے گا ۔ لہٰذا حکومت اور عمران خان کے درمیان مذاکرات دونوں فریقین کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی خوش آئند ہوں گے۔

عمران خان نے 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سیاست میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ ان کامیابیوں کے کئی ظاہر اور مخفی عوامل ہیں ۔ انہوں نے اپنے عہد کے سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے کے اپنے بیانیہ کو قبول عام بخشا ۔ یہ بیانیہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ 1947 ء سے چلا رہی تھی ۔ اس کے نزدیک ہر عہد کے سیاست دان کرپٹ ہوتے ہیں لیکن اس بیانیہ کو وہ عوامی پذیرائی نہیں ملی ، جو عمران خان نے دلائی ۔ عمران خان نے پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو دھکیل کر اپنی جگہ بنائی ۔ 2014 ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف عمران خان نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد میں جو طویل دھرنا دیا ، وہ پاکستان کی سیاست کا انوکھا واقعہ ہے ۔ اس دھرنے سے عمران خان سیاسی طو رپر بہت مضبوط ہوئے۔

دھرنے کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ پھر 2016 ء کے دھرنے میں عمران خان کو بڑی کامیابی ملی اور ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس عدالت میں چلایا جائے گا ۔ اسی پاناما کیس میں میاں نواز شریف نااہل ہوئے اور پرائم منسٹر ہائوس سے انہیں نکلنا پڑا ۔ 2018ء کے عام انتخابات میں عمران خان کی مقبولیت کی لہر چلی اور وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے ۔ یہ ساری کامیابیاں عمران خان سے زیادہ کچھ اور قوتوں کی تھیں ۔ یہ ایک مرحلہ تھا ، جو طے ہو گیا۔

ساڑھے تین سال عمران خان کی حکومت رہی ، جسے کسی بھی طرح کامیاب حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس کا اعتراف خود پی ٹی آئی والے بھی کرتے ہیں ۔ ناکام حکومت کے خاتمے کے بعد بھی عمران خان نے اپنی مقبولیت نہ صرف برقرار رکھی بلکہ اس میں اضافہ کیا ۔ مقبولیت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے جس طرح کا جارحانہ بیانیہ اور غیر لچکدار رویہ اختیار کیا ، یہ سیاست میں ہمیشہ حادثے کا سبب بنتا ہے ، تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ اب 2014 اور 2016 ء نہیں ہے ۔ جن قوتوں کو عمران خان کی ’’ عظیم کامیابیوں ‘‘ کی جس طرح پہلے ضرورت تھی ، اب شاید نہیں ہے ۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی شاید اب تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ یہ ملکی حالات کا تقاضا ہے ۔ اب عمران خان ’’سیاسی طاقت ‘‘ سے وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتے ، جو انہوں نے 2016 ء میں حاصل کیا تھا ۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی حکومت کو بھی عمران خان کو ہلکا نہیں لینا چاہئے ۔ وہ اس وقت حکومت پر خاطر خواہ سیاسی دبائو بڑھا سکتے ہیں ۔ انہیں صرف ریاستی طاقت سے ڈیل کرنے کی پالیسی سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے ۔ عمران خان اس وقت سیاسی خلفشار پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عمران خان کو مذاکرات کی پیش کش کرے ۔ عمران خان بھی اس پیشکش کا مثبت جواب دیں ۔

اب تو پی ٹی آئی کی قیادت خود یہ محسوس کر رہی ہے کہ فوری طور پر عام انتخابات کا انعقاد ملک کے موجودہ حالات میں ممکن نہیں ۔ اس مطالبہ پر عمران خان کو فیس سیونگ دینی چاہئے اور مقررہ وقت سے ایک دو ماہ پہلے انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرا دینی چاہئے ۔ اس کے علاوہ انتخابی اصلاحات ، سیلاب کے متاثرین کی امداد و بحالی اور معیشت کی بہتری سمیت دیگر کئی ایشوز کو مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرنا چاہئے تاکہ ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکالا جا سکے ۔

حکومت میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن کے طور پر پی ٹی آئی کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہو گا تاکہ وہ مستقبل کی سیاست میں اپنی جگہ بنا سکیں ۔ کیونکہ آئندہ عام انتخابات میں پاکستانی سیاست میں کئی نئے عوامل (Factors ) شامل ہو سکتے ہیں ۔ عمران خان کو بنیادی دھارے ( مین اسٹریم ) کی سیاست میں آنا ہو گا اور مین اسٹریم کی سیاسی جماعتوں کو انہیں ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔