ABSOLUTELY NOT

ایبسولیوٹلی ناٹ سے مراسلے تک، امپورٹڈ حکومت سے الیکشن تک اور اب نئے آرمی چیف کی تقرری اور اپنے خلاف کرپشن کیسز ختم کروانے تک کا سفر، عمران خان بند گلی میں۔اگر مقبولیت اور ضمنی انتخابات میں کھڑکی توڑ کامیابی کا کچھ حاصل حصول ہوتا تو نواز شریف الیکشن کروا کر جھنڈے گاڑچکے ہوتے، مگر یہ ہو نہ سکا۔ عمران خان کا اعتماد متزلزل ہونا قابل فہم ، امریکہ کو خوش رکھنے کے لیے لابنگ فرم اور جنرل باجوہ سے ملاقاتوں کی سر توڑ کوشش، بری خبریں ہی۔ عمران خان لانگ مارچ کرنے کے موڈ میں نہیں، ہر قیمت پر معاملہ فہمی کی طرف رواں دواں،سر گرداں نظر آرہے ہیں۔

اپنی اسٹیبلشمنٹ پر رشک، کس قدر خوش قسمت، جس کسی کو دھکے مار کر نکالتی ہے وہی والہانہ انداز میں بوٹ پالش کرنے کیلئے تن من دھن سےحاضر رہتا ہے۔عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان دو یا تین ملاقاتوں اور رابطوں کا لب لباب بھی یہی کچھ ہے۔

بھلا آج کل عمران خان کی دشمنی ہے کس سے؟ بقلم خود،میری حکومت غداروں، میر جعفر، میر صادق، ہینڈلرز اور نیوٹرلز (جانور) نے گرا ئی ، اپنے مہرے بٹھا دئیے۔ دوسری طرف حکومتی اتحاد سے بات نہیں کروں گاکہ کرپٹ ٹولہ ہے۔ سمجھ سے بالا تر ہے ،اسٹیبلشمنٹ بھی ایسے ہی اوصافِ حمیدہ سے مرقع تو اُن سے ملاقاتوں کے لیے ایڑیاں رگڑنا ، ترسنا بلکنا کس زُمرے میں آتا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی حالیہ ہرزہ سرائی، ’’پاکستان ایک خطرناک ملک جب کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بے ربط اوربے جوڑ ہے‘‘۔اگرچہ امریکی سفیر، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان اور امریکی سینیٹر ہان کی تفصیلی وضاحتیں بھی آچکیں۔ ڈھکی چھپی بات نہیں ، پاکستان کا ایٹمی پروگرام ، امریکی دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔

رتی بھر شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اورجنرل ضیا الحق کے المیہ کی وجہ ان دونوں کا تندہی سے نیوکلیئر پروگرام شروع کرنا، پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔نواز شریف کاپھانسی تک پہنچنا دو دفعہ جلا وطنی کی وجہ ایٹمی دھماکے اور دوسرے دور میں CPEC منصوبے کا اجرا تھا۔بحث علیحدہ کہ ہمارا ایٹمی پروگرام آج بھی بیچ منجدھارکے ، 10/11سال سے تواترسے لکھ رہا ہوں۔ پاکستان کو نیوکلیئرپروگرام سے محروم رکھنا ،امریکی ایجنڈا ہے۔

طریقۂ واردات ایک ہی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی نے کام آسان بنانا ہے۔ پاکستان ٹرے میں رکھ کر جوہری اثاثے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر دے گا۔سخت جان پاکستان، معجزۂ خداوندی، آج بھی ہلکان ہونے کو تیار نہیں، ڈٹ کر اندرونی بیرونی سازشوں سے نبردآزما ہے۔75سال سے ہماری اسٹیبلشمنٹ قومی سلامتی مع وسیع تر قومی مفادات کے نام پر ، جب یہ لاٹھی میری ہے تو بھینس کیوں تمہاری ہے، چولیں ہلانے میں موثر رہی ہے۔

CPEC منصوبہ پاکستان کی معاشی مضبوطی اور اقتصادی بحالی کی اہم کڑی،CPECکا بیڑہ غرق ہونااسی سلسلے کی کڑی ہے۔نواز شریف کا متبادل عمران خان ، ایک ہیرا تراشا گیا۔ماننا پڑے گا کہ پاکستان کے خلاف عمران خان حکومت سے بھیانک سازش پہلے کبھی نہیں رہی۔ ڈیوڈ فینٹن (FENTON ) 1982میں ایک پبلک ریلیشن کمپنی تشکیل دیتا ہے۔کام لابنگ اور مشاورت کا، اور امریکی حکومت پر کئی لحاظ سے اثر اندا ز ہونا تھا۔کمپنی کا کام امریکی کانگریس، سینٹ ممبران، میڈیا میں خبریں ، مضمون، انواع و اقسام کا پروپیگنڈا شامل ہے، تفصیلات گوگل سرچ پر میسر ہیں۔ اس فرم کا بنیادی مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف مہم اورپاکستان سرفہرست ہے۔

دلچسپ بات،عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں، اس فرم کو سفارت خانے کے ذریعے 30 ہزار ڈالر ماہانہ حکومتی خرچے پر لابنگ کے لیے رکھا۔ جملہ معترضہ عمران خان نے KP ، پنجاب اور وفاقی حکومت میں ایسی کئی بھرتیاں کیں جو تحریک انصاف یا اُن کی ذات مبارکہ کی تزئین ،آرائش و زیبائش کیلئے مختص رہیں اور ہیں۔یہ بات بھی پیش نظر کہ عمران خان پاکستان پر نیوکلیئر بم گرانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ بذریعہ شوکت ترین IMF کو پاکستان کےڈیفالٹ سے نکلنے کی مخالفت کر چکے ہیں۔

نئی حکومت نے فرم کا کنٹریکٹ کینسل کیاتو چند ماہ بعد تحریک انصاف نے FENTON COMMUNICATIONS کو آٹھ کروڑ روپے سالانہ (25,000 ڈالر ماہانہ) پر رکھ لیا۔

ذہن نشین کرنا ہو گا ، امریکہ کے بارے ایک تصوراتی سوال پر ـــABSOLUTELY NOT سے لے کر ڈونلڈ لُو کی طرف سے پاکستانی سفیر کو مبینہ دھمکی اور اس پر سفیر کا مراسلہ،عمران خان کی تقاریر کا مواد بنا رہا۔ امریکی مخالف بیانیے کی آڑ میں، عمران خان نے عسکری قیادت کی اینٹ سے اینٹ بجائے رکھی۔درجنوں جلسے، درجنوں ٹی وی انٹرویوز،سوشل میڈیا کا بے تحاشا استعمال، تاثر راسخ کیا کہ امریکہ نے عسکری قیادت کے ذریعے میری حکومت کا تختہ اُلٹا۔

اچنبھے کی باتیں دو ہی ،اول امریکی فرم کو متحرک کر کے دو مقاصد کا حصول، پہلا امریکی حکومت پر اثر ورسوخ اور اس سے تعلقات استوار کرنا اور دوسرا پاکستان کی کمزوریاں خصوصاً ــــ ــــــ حساس معاملات میں اجاگر کرنا تاکہ امریکہ ہماری کمزوریوں کو استعمال کر کے پاکستان کو کمزور اور بدنام کرے،فوج پر دبائو بڑھے۔امریکی صدر کا وطنی نیوکلیئرپروگرام پر زہر آلود بیان اسی تناظر میں ہے۔

دوئم اسٹیبلشمنٹ کو ڈرانا دھمکانا، بلیک میل کرنا، عوام کو اُس کے خلا ف اُکسانا تاکہ اپنی شرائط پر اسٹیبلشمنٹ کوتابع و فرماں بردار بنایا جا سکے۔ عمران خان یہ بات سمجھنے سے قاصرہے کہ اُن کا دور حکومت، پاکستان پر بہت بھاری تھا۔ کرپشن، نااہلی، نالائقی نے مملکت کو تباہی کے دہانے پر لا چھوڑا۔ چند ماہ اور رہتا تو مملکت کا شیرازہ بکھرنا نوشہ دیوار تھا۔ذمہ دار کون، وہی تو جو اس درِ نایاب کو ڈھونڈ کر لائے ۔ عمران خان نے اپنے نکالے جانے کو غداری بتایا۔ یہی سب کچھ معتقدین نے ماناجب کہ اندرون خانہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ، بیک چینل گریہ زاری، عمران خان مجموعہ تضادات۔

مقبولیت دس گنا زیادہ یا کم، عمران خان کی سیاست کو دفنانا،اسٹیبلشمنٹ کے لیے بہت جان جوکھوں کا کام نہیں رہنا۔ عمران خان کی سیاسی عمر اپنے اختتام کے قریب ہے۔

عمران خان کی فرسٹریشن کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے صلح کرنے کیلئے ہر انتہا پر جانے کو تیارجب کہ امریکہ کو راضی رکھنے کیلئے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے لے کر ہر شعبہ میں مددگار بننے پر آمادہ۔کیا عمران خان لانگ مارچ کرے گا؟ کیا عمران خان کو الیکشن ملیں گے؟ کیا عمران خان کی اداروں سے صلح ہو پائے گی اور سب کچھ ABSOLUTELY NOT۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔