28 اکتوبر ، 2022
’’ صبح کرنا شام کا ،لانا ہے جوئے شیر کا‘‘وطن تاریخ کے بد ترین بحران سے دوچار ، غنڈوں کے نرغے میں ، میرے اللہ رحم رحم ،مددمدد۔
پچھلے چند دن ہنگامہ خیز اور ہمیشہ کی طرح تکلیف دہ ، DG ISPR اور DG ISI کی غیر معمولی اورتاریخی پریس کانفرنس نے منظر نامہ تبدیل کر دیا ہے ۔ایک بات یقینی کہ ارشد شریف کو جان سے مارنے کی دھمکی جھوٹ گھڑی گئی۔ وزیراعلیٰ کے پی ملوث، مقصد ارشد شریف کو ڈرا دھمکا کر ملک چھوڑنے کیلئے مجبور کرنا تھا ۔ چند دن بعد 10اگست کو خبر آئی کہ ارشد شریف پاکستان چھوڑ کر دبئی پہنچ گئے ہیں۔
روانگی باچا خان ائیر پورٹ سے، کے پی کے وزیر اعلیٰ کے پروٹوکول اور مراد سعید نے ان کو بنفس نفیس رخصت کیا۔ارشد شریف کے بہیمانہ قتل پر سازشی تھیوریاں اور بدلتی کہانیاں معمول ہیں۔اطلاع ملتے ہی عمران خان اور ساتھیوں نے سیاست شروع کردی، لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔گویا اسی کے منتظر تھے۔
’’ارشد شریف کو میں نے اصرار کرکے پاکستان سے باہر نکالا‘‘،عمران خان نے تفصیل بتائی کہ چار بندوں نے بند کمروں میں فیصلہ کیا جہاں مجھے اور ارشد شریف کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ارشد شریف کو زبردستی بیرون ملک بھیجنے والے مراد سعید نے دو ہفتوں بعد انکشاف کیا، بیرون ملک اُن کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جا چکاہے۔
ارشد شریف کو گھیر کر پاکستان سے باہر بھجوانے کا پہلو اہمیت اختیار کر گیا۔ عمران خان اسکیم کے تحت ملوث ہیں یا اُڑتے تیرکو بغل میں لیا، دونوں صورتوں میں خانہ خرابی ۔
پاکستان میں عمران خان، مراد سعید، محمود خان اور ایک نجی چینل کے مالک کا کرداراہمیت اختیار کر گیا ہے۔بہت جلد پاکستان کے اندر کسی تھانے میں ارشد شریف کے قتل کی FIR درج ہو جائے گی۔اِن چاروں کو شامِل تفتیش ہوناہی ہے۔ آنے والے دنوں میں ارشد شریف قتل، پاکستان کا سیاسی نقشہ یکسر بدل دینے کو ہے۔
واقعات کا جائزہ لیں،ایک سال پہلے ارشد شریف کے صحافتی کیرئیر میں اسٹیبلشمنٹ کا خاصا اثرو رسوخ تھا۔ہر لمحہ قتل کے بارے میں بدلتی صورت حال ، نئی نئی ہوشربا کہانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دبئی سے نیروبی تک پھیلا ہے۔
ایک نجی چینل کے کردار پر بے شمار سوالات اُٹھ چکے ہیں۔ کئی پہلو ہکا بکا کر رہے ہیں۔ اڑھائی ماہ پہلے ارشد شریف نے دبئی سے وی لاگ کی حد تک عسکری اداروں پر اٹیک کیا جو عمران خان اور ساتھیوں کی روزانہ تقریروں کی زینت بنا ۔ارشد شریف کو دبئی سے نکلنے پر کسی نے مجبور نہیں کیا ، کینیا جانے پر مجبور کس نے کیا؟ دبئی اور نیروبی میں ان کے قیام و طعام کا ذمہ دار کون اور ان کے سفری پلان میں کون ملوث تھا؟ ارشد شریف پچھلے دوماہ سے کینیا میں مقیم تھے۔ کینیا پہنچتے ہی خرم احمد اور وقار احمد سے رابطہ قائم ہوا۔خرم اور وقار کون ہیں ؟
ہر قدم شکوک و شبہات، پاکستان میں جان کو خطرہ ، دھمکیاں، ملک چھوڑنے پر اُکسانا، دبئی ، کینیا میں سکونت اور دیگر سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی۔ تین کردار ہر جگہ سامنے۔مشکوک فارم ہائوس شوٹنگ رینج ، سیکورٹی ٹریننگ سنٹر اور بہت کچھ تھا۔اُمید ہے پاکستانی انکوائری کمیشن نیروبی میں خرم اور وقار تک رسائی حاصل کرپائے گا ۔ان شاء اللہ سارے حقائق منظر عام پر آئیں گے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ارشد شریف دو گولیاں ایک سینے میں اور دوسری سر پر، امکان، گاڑی کے اندر سے پوائنٹ بلینک رینج سے ماری گئی۔
کیا عمران خان کی ساری تدابیر الٹی پڑ چکیں؟ آج کی پریس کانفرنس سے تاثر سامنے آیا ہے کہ قتل کی واردات کے سارے ڈانڈے مکمل ہیں۔ کون، کون ہے؟ کون کہاں مقیم ہے؟ کون سا غیر ملک ملوث ہے؟ سب کچھ معلوم ہے۔ انکوائری ٹیم واقعات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔
قتل کی خبر آتے سنتے ہی یقین تھا کہ پاکستان کا منظر نامہ الٹ پلٹ ہو جائے گا۔ یہ بات طے ہے کہ اس قتل میںجو بھی پاکستانی کردارملوث پایا جائے گا، وہ اپنے سیاسی اور کاروباری معاملات میںبھیانک انجام کو پہنچے گا۔ عمران خان خونی لانگ مارچ کر کے جلد از جلد فائدہ اٹھانا چاہتےہیں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ آج عمران خان بری طرح پھنس چکا ہے۔
دو جرنیلوں کی پریس کانفرنس کی کچھ ضمنی باتیںبھی ، عمران خان کارات کو مل کر منت ترلے کرنا اور صبح غدار کہنا معمول تھا۔ تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے پر جب جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع کا لالچ دےرہے تھے‘ اس وقت مراسلہ اور امریکی سازش کہاں تھے ؟ہمیشہ کہا بوجہ جھوٹ عمران خان کے پاس وقت نہیں ،وہ جلدی میں تھا۔یہی جلدی عمران خان کوبھاری پڑگئی ۔ شک نہیں کہ ارشد شریف کا خون رنگ لانے کو۔ عمران خان، مراد سعید،محمود خان اور ایک نجی چینل کے مالک سارے چنگل میں، ایک آدھ وعدہ معاف گواہ بھی۔ قتل کے مقدمہ میں شامل تفتیش ہو گا،الزام ثابت ہو سکتا ہے انتظارفرمائیے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔