03 نومبر ، 2022
اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ احتجاج پاکستان تحریک انصاف کا حق ہے لیکن یقین دہانی کرائیں کہ امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھیں گے۔
پی ٹی آئی کی جلسہ اور دھرنے کی اجازت نا دینے کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے انتظامیہ کے مجاز افسر کی عدم پیشی پر سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ کوئی سول کورٹ ہے؟ یہ ہائیکورٹ ہے، ضلعی انتظامیہ کے مجاز افسر طوری طور پر پیش ہوں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے 25 مئی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ سپریم کورٹ کا آرڈر ہے؟ جس پر جہانگیر جدون نے کہا کہ یہ چیئرمین پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا جواب ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ عمومی طور پر جلسوں کی اجازت سے متعلق کیا طریقہ کار ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ہوتا تو یہی طریقہ کار ہے کہ پارٹی کی اجازت سے ہی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، ان کی ریلی میں نقصان ہوا تھا اور پولیس والے زخمی ہوئے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ وکیل تو جو بھی بات کرتا ہے وہ کلائنٹ کی طرف سے ہی کرتا ہے، پہلے انہوں نے جس جگہ کی اجازت مانگی تھی کیا یہ وہی جگہ ہے؟
بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ بالکل اسی جگہ کی اجازت مانگ رہے ہیں، انہوں نے ہمیشہ ٹرمز اینڈ کنڈیشن کی خلاف ورزی کی، ہم ان پر اعتماد نہیں کر رہے، دو سینئر وکلا کی یقین دہانی کو پی ٹی آئی لیڈرشپ نے ماننے سے انکار کر دیا، ہم نے ٹی چوک کی جگہ رکھ دی ہے یہ جلسہ کرنا چاہییں تو کر سکتے ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ علی اعوان نے یہ پٹیشن فائل کی ہے وہ اس کے ذمہ دار ہیں، معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس پر نہیں بولنا چاہیے تھا نا میں بول رہا ہوں، ٹی چوک جی ٹی روڈ ہے، ریڈ زون کو اب انہوں نے اسی دوران بڑھا دیا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا کہتے ہیں کہ جو جگہ آپ کو یہ دیں وہاں وہ نہیں ہو گا جو پہلے ہوا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے رابطے تک ہم ان پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
عدالت نے کہا کہ کل آپ نےکہا کہ 6 ،7 تاریخ ہے پھر کچھ اور کہا، تاریخ سے متعلق آپ نے واضح ہونا ہے، جس پر بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ اب تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 10 ماہ رہیں گے کوئی مقررہ تاریخ انہوں نے بتانی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جو بھی مقام ہو آپ یقین دہانی کرائیں کہ امن و امان برقرار رکھیں گے، کسی کو اس کی ذمہ داری لینی ہو گی، ایسا نہ ہو کہ کہا جائے کہ لاہور یا کراچی والوں نے ایسا کیا، آپ خیال رکھیں گے کہ روڈز بلاک نہ ہوں، لوگوں کو مشکلات نہ ہوں، احتجاج آپ کا حق ہے لیکن شہریوں کے حقوق کو بھی خیال رکھنا ہو گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔