آؤ، پاکستان سے کھیلیں

2014 سے جاری کھلواڑ ،امپائر بمع انگلی بنفس نفیس کھلاڑی کے ساتھ کھیل میں شامل ہو چکا ہے۔آج سے میدان پھر سجنے کو، سیٹی بج چکی، کھیل آگ اور خون کے مرحلے میں ،اہلِ وطن بے بس اور تماشائی ششدر۔ چند ہفتے پہلے عمران خان کی بطور وزیراعظم گفتگو ، لب لباب اتنا پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ امریکی مراسلے پر کھیل کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔در حقیقت یہ کھیل مملکت کے خلاف ہی کھیلا جانا تھا۔

’’اعظم خان مراسلے کو توڑ مروڑ کر قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کریں گے‘‘، بقول عمران خان، ’’اُس پر میں کھیلوں گا‘‘۔من و عن الفاظ "LET`s PLAY WITH IT" ۔

2009 میں’’پراجیکٹ عمران خان ‘‘کی بنیاد بڑے سوچ بچارکے بعد رکھی گئی۔2014میں بمع فرسٹ کزن امپائر کی انگلی کے سہارے ،’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘کے نعرے پر اسلام آباد یلغار کی۔ چند ہزار بندوں کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس میں گُھسنا اور نواز شریف کو باہر سڑکوں پر گھسیٹنا تھا۔ الحمدللہ شاندار ناکامی ہوئی۔ اس سازش میں امپائرز عزتِ سادات گنوا بیٹھے لیکن عزت تو آنی جانی چیز ہے۔دو روز قبل غیر ملکی صحافی کو انٹرویودیتے ہوئے200ویں مرتبہ دُہرایاکہ’’ میں وہ شخص ہوں ، کرکٹ کی دو سو سالہ تاریخ میں جس نے پہلی دفعہ نیوٹرل امپائرز متعارف کروائے‘‘۔عمران خان یہ بات بتانے سے کیوں شرمائے کہ میں ہی ہوں وہ پہلا شخص، سیاست کی تین سو سالہ تاریخ میں جس نے پہلی دفعہ’’ امپائر کی انگلی‘‘متعارف کرائی اورآج کل امپائرز باقاعدہ میری ٹیم کا حصہ ہیں۔

2014 میں عوام کی عدم دلچسپی پر ذلت آمیز ناکامی ضرور ہوئی، ’’امپائرز‘‘کے عزم صمیم اور اٹل ارادوں کا ہمیشہ سے قائل، 2016 میں فرنٹ امپائرز نے ’’عدالتی امپائرز‘‘کو شامِل کیا اور پراجیکٹ کو پایۂ تکمیل تک پہنچادیا۔نواز شریف اقتدار سے باہر جیل میں جب کہ پراجیکٹ عمران خان 2018 میں کامیابی سے ہمکنار۔ امپائرز کا خیال، عمران خان مٹی کا مادھو جیسے چاہیں گے، استعمال کریں گے۔راوی نے اگلے 20 سال تک چین لکھنا تھا۔شو مئی قسمت عمران خان نے امپائرز کے چاروں طبق روشن کر دیے جب کہ ریاست نالائقی کے بوجھ تلے چکنا چورہو گئی۔

’’ امپائرز‘‘نے عمران خان کو نکالنے کی ٹھانی ۔لطف یہ بھی ،پُرانے سیاست دان بھی دردِ سر نہ بنیں چنانچہ وعدے وعید لئے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے فوراً بعد اسمبلیاں توڑنی ہوں گی۔ امپائرز کیلئے عمران خان کا مکو ٹھپنا، ہفتوں کا نہیں دِنوں کا کام رہنا تھا۔اس وقت تک مطلوب نہیں تھا جب تک نئی نویلی اتحادی حکومت فارغ نہیں ہوجاتی۔ عمران حکومت کا خاتمہ بالخیر اگر پہلے ہوا تو اتحادی حکومت تِگنی کا ناچ نہ نچوائے۔

حکومت کا خاتمہ ہر صورت میں 29 نومبر (ایک جادوئی تاریخ)سے پہلے، پچھلے چند مہینوں کا سفر کئی برسوں پر محیط جبکہ نومبر کے اگلے دس دن ،’’صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا‘‘۔2014 سے میڈیا کنٹرول میں،کئی صحافی بطور دانشور اور تجزیہ نگار متعارف کروائے، کوئی رپورٹرتو کوئی بیکری والا اور کوئی ویلنگ ڈیلنگ سے ترقی کر کے قافلہ عمران خان میں ’’قومی سطح ‘‘کا تجزیہ نگار کہلایا۔ کئی انہونیاں بھی ہوئیں، جو صحافی سینہ تان کر اسٹیبلشمنٹ کے مصاحب بنے اِتراتے پھرتے تھے، جن کی آبرو اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر تھی۔کُھلے عام جمہوریت کو گالی دینا مشغلہ، مارشل لاکے اوصافِ حمیدہ میں ربط اللسان ،آج عمران خان کی حمایت میں سینہ سپر ہیں۔کئی ایک تو اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے پھرتے ہیں۔ایک وجہ تو یوٹیوب اور سوشل میڈیا کی آمدنی جب کہ اصل وجہ اُن کے ہینڈلرز کی دلجمعی سے دلچسپی کہ وہ اپنا پُرانا عمل یکسوئی سے جاری رکھیں۔

آخری مرحلہ شروع، دو ہفتے قبل لانگ مارچ ۔ اچانک شروع ہوا تو کم حاضری نے پہلے چار دنوں کا مزہ کرکرا رکھا۔بد قسمتی پانچویں دن قاتلانہ حملہ ہو گیا۔دو اہم حادثات پر عوامی رد عمل نے عمران خان کو مایوس کیا۔ پہلے نااہلی اور پھر قاتلانہ حملہ، تحریک انصاف کی ریڈ لائنز ، قیامت بپا ہونی تھی۔چند درجن کی درجنوں ٹولیاں ضرور نکلیں،دونوں مواقع پر مگر عو ام الناس کو متوجہ کرنے میں ناکام رہے۔ 

عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور اس کے بعد کے بیانات کہ حملے کے بارے میں معلوم تھا۔’’چار ‘‘کے ٹولے نے مجھے قتل کرنے کی سازش کی بعد میں مزید ’’تین‘‘شامل ہو گئے۔پہلا منصوبہ چونکہ افشاہو چکا اب ایک مذہبی جنونی کی برین واشنگ کر کے مجھے مروانے کی سازش ہو رہی ہے۔انکشاف کیا،مجھے معلوم تھاکہ گوجرانوالہ اور وزیرآباد میں مروانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ حیرت کہ عمران خان جو فر ما رہے تھے وہی کچھ تو ہوا۔ عقل دنگ کہ عمران خان اور نہ ہی پنجاب حکومت نے حفاظتی انتظامات کیے ۔لگتا ہے انتظارمیں تھے کہ خدانخواستہ کوئی سانحہ ہو جائے۔ دو رائے نہیں ، عمران خان کی سیاست کو بعد استعمال ٹھکانے لگانا، امپائرزکا آخری فیصلہ ہے۔اس سے پہلے موجودہ حکومت کی رُخصتی اور نگران سیٹ اَپ کا قیام بھی ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تہ تیغ کرنا اور عمران خان کی سیاست کو ملیا میٹ کرنا ، حاصل کلام ہے۔بظاہر عمران خان بھی آگ اور خون کے کھیل کا متمنی اور ایمپائرز کو بھی شاید یہی وارا کھائے ۔کیا امپائرز جانتے ہیں ریاست کے ساتھ ایسے کھلواڑ میں مملکت کا بچنا ناممکن ہے؟

آگ اور خون کے اس کھیل کے پیچھے اصل کھلاڑی کون ،کیا عمران خان ایک سینئر افسر کے خلاف پرچہ درج کروانے کے بعداپنے نشانے پر ایسے سینئر افسر لینے والے ہیں جو چند ہفتوں میں بڑی ذمہ داری کی دوڑ میں شامل ہے؟ کیا عمران خان کےلا نگ مارچ کا تعلق کسی اورکو ’’کچھـ‘‘حاصل کرنا اور کسی اور کو ’’کچھ‘‘سے محروم رکھنا ہے۔

کیا آج سے دوبارہ شروع لانگ مارچ کا اختتام عمران خان کی سیاست کوبے دم کر سکتاہے؟ یقین ہے موجودہ حکومت ڈٹ کر مقابلہ کرے گی ۔اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کی جنگ میں پاکستان دو لخت، ایک حصہ گنوا بیٹھے ۔کیا باقی ماند ہ مملکت پر ایک اور مہلک وار ہونے کو ہے۔ذمہ دار اور مجرم کون ہیں؟ وطن کی فکر گھائل کر رہی ہے،کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔