15 ستمبر ، 2023
فاسٹ فوڈ کی اصطلاح ایسی غذا کے لیے استعمال ہوتی ہے جو لوگ فوری طور پر کھاسکیں۔
ایسے شواہد کی کمی نہیں جن سے فاسٹ فوڈ سے جسم پر مرتب ہونے والے منفی اثرات ثابت ہوتے ہیں۔
فاسٹ فوڈ میں نمک، چینی، چکنائی، ٹرانس فیٹ، کیلوریز اور پراسیس اجزا کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس طرح کی غذا کو معمول بنانا صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
فاسٹ فوڈ کا کبھی کبھار استعمال تو نقصان دہ نہیں مگر اسے معمول بنانے سے گریز کریں۔
اس کے منفی اثرات درج ذیل ہیں۔
کم قیمت ہونے کے باعث فاسٹ فوڈ کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے مگر طویل المعیاد بنیادوں پر اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
فاسٹ فوڈ میں چکنائی، کیلوریز اور پراسیس کاربوہائیڈریٹس کے نتیجے میں جسمانی وزن میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور اگر اس طرح کی غذا کا استعمال معمول بنالیا جائے تو موٹاپے کا سامنا ہوتا ہے۔
فاسٹ فوڈ میں موجود سوڈیم یا نمک اس کا ذائقہ بہتر بناتا ہے اور خراب ہونے سے بھی روکتا ہے، مگر یہ مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔
نمک کا بہت زیادہ استعمال ہائی بلڈ پریشر کا شکار بناسکتا ہے جس سے خون کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ہارٹ اٹیک اور فالج جیسی جان لیوا بیماریوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔
فاسٹ فوڈ میں پراسیس کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے جس کے ردعمل میں جسم زیادہ مقدار میں انسولین بنانے لگتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ بلڈ شوگر کی سطح میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں انسولین بنانے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ذیابیطس ٹائپ 2 کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کی غذا کا ذائقہ تو اچھا ہوسکتا ہے مگر اس میں موجود زیادہ نمک کے نتیجے میں پیٹ پھولنے کے مسئلے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ فاسٹ فوڈ میں غذائی فائبر کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے تو قبض کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔
فاسٹ فوڈ میں ایسے وٹامنز، منرلز اور دیگر اجزا کی کمی ہوتی ہے جو مزاج کو خوشگوار بناتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہے کہ فاسٹ اور پراسیس فوڈز سے لوگوں میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔
فاسٹ فوڈ میں ایسے کیمیکلز موجود ہوتے ہیں جو بانجھ پن کے مسائل کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ فاسٹ فوڈ میں موجود کیمیکلز سے بانجھ پن کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
فاسٹ فوڈ بنیادی طور پر الٹرا پراسیس غذاؤں کو کہا جاتا ہے۔
تلی ہوئی یا کریم والی غذاؤں کو ہضم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جس کے باعث وہ براہ راست آنتوں میں پہنچ جاتی ہے، جس سے ہیضے یا قبض جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
جب پراسیس کاربوہائیڈریٹس جسمانی نظام میں داخل ہوتے ہیں تو بلڈ شوگر کی سطح تیزی سے بڑھتی ہے اور پھر فوری طور پر گھٹ بھی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔
فاسٹ فوڈ میں کاربوہائیڈریٹس اور چینی کی مقدار زیادہ ہونے سے منہ میں تیزابیت بھی بڑھتی ہے جس سے دانتوں کی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ مسوڑوں اور دانتوں کے مختلف امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
فاسٹ فوڈ کے زیادہ استعمال سے اضافی جسمانی وزن اور موٹاپے کا سامنا ہوتا ہے جو جوڑوں پر دباؤ بڑھانے والے عناصر ہیں۔
اس سے جوڑوں کے اردگرد ہڈیوں کے فریکچر کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
فاسٹ فوڈ کے بہت زیادہ استعمال سے دمہ کا خطرہ بھی بڑھتا ہے خاص طور پر خواتین کے لیے۔
اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ وجہ معلوم ہوسکے مگر ابتدائی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس طرح کی غذا سے جسم کو ورم کا سامنا ہوتا ہے جس سے پھیپھڑوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
فاسٹ فوڈ میں ایسے اجزا ہوتے ہیں جو جلد کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔
چینی سے جسم میں کولیگن نامی پروٹین کی سطح کم ہوتی ہے جس سے بڑھاپے کے آثار جیسے جھریوں کا سامنا ہوتا ہے۔
نمک سے جلد کی نمی کم ہوجاتی ہے اور چکنائی سے وہ ہارمونز متحرک ہوجاتے ہیں جو کیل مہاسوں میں کردار ادا کرتے ہیں۔
طبی ماہرین کے خیال میں چکنائی اور ٹرانس فیٹس سے دماغ میں ایسا مواد جمع ہونے لگتا ہے جو ڈیمینشیا اور الزائمر امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
فاسٹ فوڈ کھانے کی عادت جگر کے امراض کا شکار بھی بنا سکتی ہے۔
سدرن کیلیفورنیا کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ فاسٹ فوڈ کے زیادہ استعمال سے جگر پر چربی چڑھنے کے عارضے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اگر اس مرض کا علاج نہ ہو تو موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔