30 نومبر ، 2022
فوج کی کمان تبدیل ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ توقعات بھی تبدیل ہوگئی ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے دی نیوز کو بتایا کہ ہم نئی اسٹیبلشمنٹ سے یہ نہیں چاہتے کہ ہمیں جلد الیکشن دیے جائیں بلکہ ہمیں توقع ہے کہ وہ سیاسی لحاظ سے غیرجانبدار رہے گی، کسی کی طرف داری نہیں کرے گی اور الیکشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
فواد چوہدری سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی اور پارٹی کے چیئرمین عمران خان بھی نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے توقع رکھتے ہیں کہ جلد الیکشن کیلئے وہ اپنا اثر رسوخ استعمال کریں گے۔ اس کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ نہیں ہم ایسا نہیں چاہتے۔ اس کی بجائے ہمیں توقع ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جلد الیکشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی لحاظ سے فوج کو چاہئے کہ وہ کسی کی طرف داری نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی جلد الیکشن حاصل کر لے گی جس کیلئے اس نے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور تمام دیگر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
فواد چوہدری نے اسد عمر کی ٹوئیٹ کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنرل عاصم منیر کی اولین ترجیح عوام اور اعلیٰ فوجی کمان کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ بحال کرنا ہونا چاہئے۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ایسا تعلق یک طرفہ نہیں ہونا چاہئے، ایسے تعلق کو طاقت یا دباؤ سے برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8؍ ماہ کے فیصلوں کی وجہ سے عوام اور فوجی کمان کے درمیان تعلق کو بری طرح نقصان ہوا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ملک کی حفاظت پر مامور مسلح افواج کو چاہئے کہ وہ بدستور قوم کا فخر بن کر رہے۔ جب فواد چوہدری سے 2020ء میں مسلح افواج کے قوانین میں ترمیم (جس کے تحت دفاعی فورسز کے چیفس کو توسیع کی اجازت دی گئی ہے) کے حوالے سے موقف پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اس قانون کے خاتمے کی حامی ہے۔
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر کسی نے ایسا اقدام شروع کیا تو پی ٹی آئی اس کی حمایت کرے گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے لیکر اور عمران خان کو حکومت سے باہر کیے جانے سے لیکر پی ٹی آئی جنرل باجوہ کے تحت ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے کہ جلد الیکشن کی راہ ہموار کی جائے۔
باجوہ پی ٹی آئی کی محبوب شخصیت تھے اور عمران خان حکومت میں ان کی تعریفیں کی جاتی تھیں لیکن عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام نہ بنانے پر وہ ناپسندیدہ ہوگئے۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو وہ جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتے تھے، ان پر الزام تھا کہ وہ انہوں نے سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کو جتوایا۔
جنرل باجوہ کو 2016ء میں نواز شریف نے مقرر کیا تھا اور بعد میں 2019ء میں انہیں عمران خان نے عہدے میں توسیع دی۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ کی متنازع مداخلت پر پارلیمنٹ نے پی ٹی آئی، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں ماسوائے جے یو آئی ف سروسز چیفس کو عہدے میں توسیع دینے کیلئے قانونسازی کی۔ اب سیاسی جماعتوں کو اس بات کا وسیع تر احساس ہے کہ اس قانون سازی کا فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہے۔
حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں میں سے بھی کئی لوگ یہ قانون ختم کرنا چاہتے ہیں اور سروسز چیفس کے عہدے کی معیاد ناقابل توسیع تین سال تک لانا چاہتے ہیں۔ نون لیگ کے ایک سینئر عہدیدار نے حال ہی میں اس نمائندے کو بتایا تھا کہ 2020ء میں منظور کیے جانے والے قانون کو درست وقت آنے پر ختم کیا جائے گا۔