09 دسمبر ، 2022
" فوج سیاست سے دور رہے گی۔ ہم ادارے کے وقار اور آئین کی بالادستی پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ فوج کا سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ اٹل ہے۔ جو لوگ مجھے جانتے ہیں وہ اس بات کی تائید کریں گے کہ میں نے ہمیشہ آئین کو مقدم سمجھا ہے‘‘ ۔دُعا گو ہوں کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنے خیالات کو آنے والے دنوں میں من و عن عملی جامہ پہنائیں۔
پاکستان کا وجود ، قائداعظم کی بے مثال قیادت اورنظریاتی بیانیے کی مرہون مِنت ہے۔ مملکت نے اسلامی نظریے اور سرکاری زبان کو مستحکم کرنا تھا ، قوم بناناتھی۔نظریہ جڑ پکڑ سکا نہ زبان نصیب ہوئی اور نہ ہی قوم بن پائی۔ کاش مستحکم نظام ہی تشکیل پا جاتا۔ آج مملکت حالتِ نزاع میں ہے۔
سیاست کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط اور محفوظ ہے۔ پرُانی تاریخ کو پرکھیں یا گزشتہ چند سو سال سے رائج جدید ریاستی نظام پھرولیں۔سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی شکار مملکتیں و قومیں اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔
مسئلہ فیثا غورث نہیں ،سیاسی استحکام قوموں کو عروج و دوام دیتاہے۔ ایک مملکت بتائیں جس نے بوجوہ کرپشن اپنا وجود کھو یا ہو۔ بحث علیحدہ جہاں سیاسی عدم استحکام براجمان ہو وہاں کرپشن اور لاقانونیت تباہی کے عمل کو تیز کر دیتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو کریڈٹ کہ جنوری 1951 سے لیکر29 نومبرتک نظام کو درہم برہم کرنے میں گوڈے گوڈے ملوث رہی۔
جنرل عاصم منیر کو یہی ثابت کرنا ہے کہ فروری 2021 میں غیر سیاسی رہنے کا کیا گیا فیصلہ لیٹر اینڈ اسپرٹ میں نافذ ہوا۔اس وقت وطنِ عزیز میں، تاریخی بحران کے نرغے میں، نبرد آزما ہونے کی سکت ہے بھی یا نہیں؟ مملکت کی بڑی سیاسی جماعتیں باجماعت بلا تفریق اہلیت، قابلیت ، آئیڈیلزم کے لوازمات سے سر تا پامحروم ہیں،جس کو مرضی اقتدار سونپ دیں، وطن کی کشتی کو بحران سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔
نواز شریف اور عمران خان دونوں بنفس نفیس کسی آئیڈیلزم یا نظریےکے بندھن میں کبھی نہیں بندھے تھے جب کہ بے نظیر ، زرداری، بلاول اور مولانافضل الرحمان وغیرہ اپنے سارے اوصافِ حمیدہ کے باوجود حادثاتی لیڈر، بڑوں کی موت نے ان کو’’بڑا‘‘بنا دیا۔ نواز شریف کو عمران خان پر اتنی فوقیت کہ آئین و پارلیمان کی بالا دستی کیلئے ہمیشہ ڈٹے رہے،ماریں بھی کھائیں جب کہ عمران خان کا فوج کومداخلت پر اُکسانا اُن کا سیاسی مشغلہ رہاہے۔ فوجی قیادت یکسوئی کے ساتھ ملکی سیاست کے’’ جوڑ توڑ مروڑ‘‘میں ملوث رہی، آج کی سیاست کے بالادست نواز شریف اور عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی فخریہ پیشکش سمجھی جائے۔
دو رائے نہیں، عمران خان طمطراق کے ساتھ ملکی سیاست پر حاوی ہیں۔ اگر آج کے حالات میں آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہوا، عمران خان کی کامیابی یقینی ہے۔
چند سال پہلے مملکت خدا داد کا وزیراعظم نواز شریف تھا۔شاذ شاذ کہ عنانِ اقتدار اور مقبولیت ایک جگہ اکھٹی ہو پائیں۔اسٹیبلشمنٹ کی نواز شریف سے مخاصمت کی وجہ بھی یہی بنی ۔ نوازشریف کو تاراج کرنے میں ہر غیر آئینی اور غیر قانونی طریقہ اپنایا گیا۔ مملکت کی ممکنہ تباہی کسی طورخاطر میں نہ لائی گئی۔ 2015 تا 2018 تسلسل کے ساتھ لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی ہمہ وقتی مہم جوئی ایسے وقت پر جب کہ پاکستان نازک موڑ پر ہے،مملکت کاوجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
چند سال پہلے سی پیک منصوبہ ساتویں آسمان کی سیر کروانے کو تھا۔ امریکی غلامی سے بتدریج نکلنے کا واحد فارمولا یہی تو تھا، سب کچھ بھینٹ چڑھ گیا۔ ریشہ دوانیوں میں آئین ، نظام، قانون ، انصاف کا کھلواڑ ہوا۔ نواز شریف تاحیات نااہل ( وزارت عظمیٰ گئی) ، پارٹی صدارت سے جبراً فراغت، مضحکہ خیز ٹرائل، بالآخر بیٹی سمیت دس سال جیل نصیب ہوئی۔
کیسے مان لوں آنے والے دنوں میں عمران خان کے ساتھ مختلف برتاؤ ہو گا؟بے شک ،عمران خان کی تاحیات نااہلی دہلیز پر ہے۔اگلا مرحلہ پارٹی صدارت سے معزولی، مقدمات کا سامنا،کرپشن ثابت ہونے پر جیل جانے کا قوی امکان ہے۔ اگر عوام میں مقبول نواز شریف بمع پارٹی 2018 انتخابات میں غیر مؤثر بنا دیئے گئے تو عمران خان بارے ’’قانون فطرت‘‘ کیونکر مختلف ہوگا۔
امید ہے کہ نواز شریف کی مد میں آئین اور قانون جس بری طرح روندا گیا،عمران خان کے معاملے میں دہرایا نہیں جائے گا۔ بیٹے سے 10 ہزار درہم تنخواہ نہ لینے جیسے لغو الزامات پر منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنے جیسا غیر قانونی رضا کارانہ فریضہ ، مانیٹرنگ جج جیسی ’’بد عت‘‘ اور کئی دوسری اختراعوں نے سپریم کورٹ کو ’’تماشہ گھر‘‘ بنا ئے رکھا۔ایک بھی جگہ مماثلت نہیں، نواز شریف کا میڈیا ٹرائل 2014 سے شروع تھا۔ دشنام طرازی اورالزامات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔
آج عمران خان میڈیا کی ڈارلنگ ہیں۔ میڈیا ٹرائل کے بغیردیانت اور امانت کا امیج مجروح ہونا ، حیرت ہے۔ دیکھنا ہو گا عمران خان کی سیاست کاامکانی مستقبل کیا ہے؟مقدمات سے گلو خلاصی رہی، سزا سے بچ گئے تو، جلد یا بدیر انتخابات میں عمران خان کی کامیابی یقینی رہے گی ۔حکومت اور مملکت پاکستان دونوں عمران خان کے رحم و کرم پر چھوڑنا حالات کا جبر اور مجبوری بنے گا۔عمران حکومت کے قیام میں آسودگی اتنی ’’ اپنے زور بازو‘‘ پر اقتدار میں آنے والا عمران خان کئی قومی تنازعے حل کر جائے گا۔ شرط اتنی کہ پاکستان کا وجود قائم رہے۔
عمران خان اپنی غلط سیاسی حکمت عملی بنا ترکش کے سارے تیر چلا چکا ہے۔ دھرنے ، لانگ مارچ اور اب صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی گیدڑ بھبکی سب سعی لا حاصل رہے ۔عمران خان کی سیاست دباؤ میں ہے۔میرے نزدیک عمران خان کی پچھلے چند مہینوں کی حکمت عملی ان کی سیاست کو بند گلی میں چھوڑ گئی ہے، معجزہ ہی نکال پائے گا۔
ریڈیو پاکستان میانوالی کی زبوں حالی اور میانوالی کے بے مثال سوشل ورکرسید ندیم عالم فکرو فاقہ سامنے، چیف سیکریٹری عبداللہ سنبل کاتعلق بھی میانوالی سے ہے۔ گزارش ہے کہ ریڈیو پاکستان کو مستقل عمارت عنایت فرمائیں۔مالی معاملات کو دیکھیں اور بند ہونے سے بچائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔