08 دسمبر ، 2012
کراچی … محمد رفیق مانگٹ … امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل “ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور شمالی اتحاد میں گٹھ جوڑ ہونے جا رہا ہے، رواں ماہ فرانس میں ملا عمر کے اہم ساتھیوں اور شمالی اتحاد کے درمیان اجلاس ہوگا، طالبان وفد کی سربراہی شہاب الدین دلاور کریں گے۔ امریکا نے افغان حکومت کو افغانیوں سے بات چیت کی اجازت دی ہے۔ امریکا بھی طالبان کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہے آئندہ چند ہفتوں میں گوانتا نامو بے سے طالبان قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔ طالبان قطر میں عنقریب اپنا سیاسی دفتر قائم کرنے والے ہیں، پاکستان کے موٴقف میں نرمی آئی ہے، قطر میں دفتر کے قیام کیلئے پاکستان طالبان رہنماوٴں کو پاسپورٹ جاری کررہا ہے۔ امریکی اخبار کی تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کا امکان ہے اور 2014ء میں نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان کے مستقبل کے متعلق ان دونوں کے درمیان ا بتدائی رابطے ہوئے ہیں۔ ملا عمر کے نمائندوں اور شمالی اتحاد کے اہم رہنماوٴں کے درمیان پہلا باضابطہ اجلاس رواں ماہ فرانس میں ہو گا جس کااہتما م ایک فرانسیسی تھنک ٹینک نے کیا ہے، تاہم اس ملاقات سے موٴثر نتائج حاصل ہونے اور خانہ جنگی کے خاتمے کا کوئی امکا ن نہیں صرف ایک دوسرے کے موٴقف سے آگاہی ہوگی اور کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے راہ ہموار ہوگی۔ ایک دہائی قبل قیادت کی سطح پر مذاکرات کی پیشکش کے مسترد ہونے کے بعد طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان پہلی بار رابطہ کیا گیا۔ شمالی اتحاد کے مقتول رہنما احمد شاہ مسعود کے بھائی کا کہنا ہے کہ جب ہم آمنے سامنے بات کریں گے تو معلوم ہونا چاہئے کہ طالبان کی کیا حیثیت ہے، طالبان، افغان حکومت ا ور بین الاقوامی برادری اس جنگ سے تھک چکی ہے۔ اس سال امریکا نے طالبان کے ساتھ بات چیت کی اور افغان حکومت کو افغانیوں سے اور اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو بھی بات چیت کی اجازت دی، اسی پیشرفت کی وجہ سے ملا عمر کے نمائندے قطر میں سیاسی دفتر قائم کرنے جارہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ امریکا کے بات چیت میں شامل اعلیٰ حکام کا کہنا ہے آئندہ چند ہفتوں میں گوانتاناموبے سے طالبان قیدیوں کو رہا کیے جانے کا امکان ہے۔ اگرچہ طالبان شمالی اتحاد اور امریکا سے بات چیت کیلئے تیار ہوگئے ہیں لیکن حامد کرزئی سے کسی بھی قسم کی بات چیت کیلئے تیار نہیں ہیں تاہم کرزئی کے 2 سینئر مشیروں نے پیرس اجلاس میں شرکت کی توقع کا اظہار کیا ہے۔ طالبان دور کے وزارت خارجہ کے سابق عہدے دار کا کہنا ہے کہ یہ امن بات چیت نہیں صرف افغانیوں کے درمیان تبادلہ خیال ہے۔ کرزئی ماضی میں طالبان کے قطر میں دفتر کھولنے یا ان کو بائی پاس کرکے طالبان سے بات چیت کے سخت مخالف تھے، افغان حکومت نے بھی فرانس اجلاس کیلئے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا ہے۔ کرزئی کے ترجمان نے افغانستان کے مستقبل اور امن کیلئے اس اجلاس کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس ماہ فرانس میں ہونے والے اجلاس میں طالبان وفد کی سربراہی اہم رہنما شہاب الدین دلاو کریں گے۔ طالبان دور میں سعودی عرب اور پاکستان میں سفیر اور 2001ء میں طالبان سپریم کورٹ کے نائب سربراہ شہاب الدین کو اقوام متحدہ ناپسندیدہ قرارد ے کر پابندی عائد کرچکی ہے۔ پیرس کے سفر کیلئے شہاب الدین کو اقوام متحدہ کی کمیٹی کی طرف سے پابندی کے خاتمے کی ضرورت ہے جسے ابھی تک ختم نہیں کیا گیا۔ کابل میں سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ اجلاس کے وقت انہیں رعایت دے دی جائے گی۔ سفارت کاروں کے مطابق اقوام متحدہ آئندہ برس کے آغاز پر افغان سیاست دانوں اور طالبان کی ہائی کمان کو متحد کرنے کیلئے ترکمانستان میں ایک سیمینار کا انعقاد کرنے جارہی ہے۔ افغان پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر یونس قانونی بھی پیرس اجلاس میں شرکت کریں گے، پاکستان کے موٴقف میں بھی نرمی دیکھی جارہی ہے۔ ان دنوں طالبان حکام کو پاسپورٹ جاری کئے جا رہے ہیں تاکہ وہ قطر مشن کو قائم کر سکیں۔ یونس قانونی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا، قطر میں طالبان آفس کو پاکستانی اثرو رسوخ سے دور رکھا جائے گا۔