20 دسمبر ، 2022
مولا جٹ کا شمار پاکستانی فلم انڈسٹری کی کامیاب ترین فلموں میں ہوتا ہے ، اگر ایک پرتشدد سین کو بنیاد بنا کر اس پر جنرل ضیا کے مارشل لاء دور میں پابندی نہ لگائی جاتی تو شاید یہ فلم پڑوسی ملک کی آج بھی کامیاب ترین سمجھی جانے والی فلم "شعلے" کا ریکارڈ بھی توڑ دیتی، شعلے کی انڈین سنیماؤں میں نمائش مسلسل 5 سال جاری رہی۔
43 سال بعد پاکستانی شائقین کو اس بلاک بسٹر فلم کا سیکوئیل دیکھنے کو ملا۔ پاکستانی فلم میکر بلال لاشاری نے دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے نام سے فلم بنا ڈالی جو 13 اکتوبر 2022 کو نمائش کیلئے پیش کردی گئی۔
1979 میں جب مولا جٹ ریلیز ہوئی اور اس کی کامیاب نمائش جاری تھی تو اس وقت بھی سیاستدان اس فلم کے سحر میں مبتلا ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے، 1979 میں فلم کی ریلیز کے وقت ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے ماحول میں فلم کے ڈائیلاگ زبان زد عام تھے اور کئی سیاستدان "نواں آیا ہے سوھنیا" سے لے کر "مولے نوں مولا نا مارے تے مولا نئیں مرسکدا" جیسے ڈائیلاگ بولتے نظر آئے تھے۔
دی لیجنڈ آف مولاجٹ کی ریلیز کے وقت بھی ملک میں سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر تھی، فلم کی ریلیز سے دو روز پہلے کامران ٹیسوری اچانک گورنر سندھ بنا دیے گئے اور 21 اکتوبر کو سرگودھا یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انہیں مولاجٹ سے تشبیہہ دے ڈالی۔ عمران خان جو ملک کے مقتدر اداروں سے اپنی حکومت بچانے کیلئے کردار ادا نہ کرنے پر ناراض تھے اور کبھی ان کے سیاست میں کردار اور کبھی کردار ادا نہ کرنے پر مسلسل تنقید کررہے تھے انہوں نے کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر بظاہر ان کے حلیے کو بنیاد بناتے ہوئے انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔
عمران خان نے بظاہر ایک جملہ ہی کہا لیکن ان کی کوشش تھی کہ وہ اس طرح ایک بار پھر سیاست میں اداروں کے کردار کو ایکسپوز کریں۔ انہوں نے کہا کہ گورنر سندھ مولاجٹ لگتا ہے لیکن یہ کہتے وقت وہ شاید یہ بھول گئے کہ فلم کی کہانی میں مولاجٹ ہیرو تھا۔
کامران ٹیسوری نے عمران خان کے اس تبصرے کو خوش آمدید کہا اور اب مولا جٹ کو سندھ کا گورنر بنے سوا دو ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ان کا حلیہ ممکن ہے عمران خان کو مولا جٹ سے مشابہہ لگا ہو لیکن جس دھیمے لہجے میں وہ بات کرتے ہیں تو اسی فلم کا کردار "نوری نت" یاد آجاتا ہے۔
کامران ٹیسوری نے گورنر سندھ بننے کے بعد جس "گورنرایکٹوازم" کا مظاہرہ کیا ہے اس نے کئی لوگوں کو چونکا کر رکھ دیا ہے، وہ ایک دن میں کئی مقامات پر نظر آتے ہیں اور میڈیا کو اپنے پیچھے دوڑاتے رہتے ہیں، ان کے یہ دورے اور مختلف لوگوں سے ملاقاتیں یقیناً ان کی سیاست کا حصہ بھی ہوسکتی ہیں لیکن دو کہانیاں ایسی ہیں جنہوں نے ان کے انسان دوست ہونے پر مہر ثبت کردی ہے۔
کامران ٹیسوری نے گورنر سندھ کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد جب مزار قائد پر حاضری دی تو وہاں سے واپس آنے کے بعد انہوں نے ایک شخص کو گورنر ہاؤس مدعو کیا اور اس کی خدمات کا اعتراف کیا۔ اس شخص کو اس سے پہلے کبھی اس طرح کسی سرکاری شخصیت نے نہ تو کبھی اپنے گھر یا دفتر مدعو کیا تھا اور نا ہی کبھی ان کی خدمات کا اس طرح اعتراف کیا گیا تھا حالانکہ پچھلے کئی سالوں میں کتنے ہی صدور، وزرائےاعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان، وزرائے اعلی اور گورنرز ان کے دعائیہ الفاظ پر آمین کہہ چکے تھے۔
یہ تھے قاری شمس الدین جو پچھلے کئی سالوں سے مزار قائد پر وی وی آئی پیز کی آمد کے موقع پر مزار پر فاتحہ کراتے ہیں۔ گورنر سندھ نے ایک ایسی ہی دوسری شخصیت کو اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں گورنر ہاؤس میں ہونے والے عشائیے میں مع اہل خانہ مدعو کیا اور یہ صاحب گورنرہاوس کی مسجد کے پیش امام قاری اویس ہیں۔ گورنر ہاؤس میں مقیم رہنے والے کئی گورنرز ان کے مقتدی رہے ہیں لیکن کسی مقتدی سے امام کو اس سے پہلے یہ عزت نہیں ملی تھی۔
گورنر ہاؤس ان دنوں ایک اور طرح کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے ، 22 اگست 2016 کے بعد بکھرنے والی ایم کیو ایم ان دنوں چار مختلف ڈھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کے عروج کے دور میں ایم کیو ایم کے سب سے طاقتور شخص گردانے جانے والے انیس قائمخانی، کراچی کے سب سے کامیاب ناظم سمجھے جانے والے مصطفیٰ کمال کو لے کر اپنی الگ پارٹی قائم کرچکے ہیں۔ ابتداء میں ان کے ساتھ ایم کیو ایم کے کئی اور اہم لوگ بھی شامل ہوئے لیکن پھر "لوگ جاتے گئے اور کارواں لٹتا رہا" اور یہ اہم ساتھی مختلف وقتوں میں واپس ایم کیو ایم پاکستان کو پیارے ہوگئے۔
پاک سرزمین پارٹی بنانے پر انیس قائمخانی اور مصطفیٰ کمال پر بھی وہی الزامات لگے کہ ماضی میں آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ کی طرح ان کی جماعت پر بھی کسی اور کا ہاتھ ہے اور شاید یہی چیز مہاجر قومی موومنٹ کی طرح پی ایس پی کی عوام میں مقبولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی رہی۔ پی ایس پی سیاست اور انتخابی سیاست کے میدان میں بھی کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھاسکی۔
ایم کیو ایم سے الگ ہونے والی ایک اور شخصیت ڈاکٹر فاروق ستار کی ہے جو اپنا ایک الگ گروپ ایم کیو ایم بحالی کمیٹی قائم کرچکے ہی۔ں ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال میں قدر مشترک دیکھی جائے تو دونوں کو کراچی کے عوام کی خدمت کا موقع ملا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار 1987 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں کراچی کے میئر منتخب ہوئے تھے، فاروق ستار بھی سیاست کے میدان کے پرانے کھلاڑی ہونے کے باوجود انتخابی سیاست میں مکمل ناکام نظر آئے ہیں۔
ان دونوں کے برعکس ایم کیو ایم پاکستان جس کی قیادت آج خالد مقبول صدیقی کے ہاتھوں میں ہے گرتے پڑتے ہی سہی سیاست اور انتخابی سیاست میں کچھ نا کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہے۔ تاہم کہنے والوں کا کہنا ہے کہ 2016 کے بعد سے اب تک ایم کیو ایم پاکستان کو اگر سیاست کے میدان میں کچھ ملا ہے یا اس نے جو کھویا ہے تو وہ اس کے " یس سر" ہونے کی وجہ سے ہے۔
کامران ٹیسوری گورنر سندھ بننے کے بعد سے ہی ایم کیو ایم کو دوبارہ "ایک" کرنے پر کام کررہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف اس ایم کیو ایم کو جانتے ہیں جس کا وہ 2017 میں حصہ بنے اس سے پہلے کی ایم کیو ایم وہ نہ جانتے ہیں اور نا ہی اس حوالے سے کوئی کردار ادا کریں گے وہ صرف ایم کیو ایم پاکستان کی بات کرتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو پی ایس پی کا قیام بھی کامران ٹیسوری کے ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت سے پہلے کا واقعہ ہے۔
کامران ٹیسوری نے اپنی گورنری کے سوا دو ماہ میں خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال سے گورنر ہاؤس میں کئی ملاقاتیں کی ہیں لیکن ایک سوال ہے جو ان دنوں کراچی کے مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے وہ یہ کہ متحدہ ایم کیو ایم آخر کس کی ضرورت ہے؟ اور اچانک اس کی اتنی سخت ضرورت کیوں پڑگئی ہے؟ کیونکہ ماضی میں ایک موقع پر جب ایم کیو ایم کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کے ہاتھوں میں تھی تو انہوں نے اور مصطفیٰ کمال نے یہ کوشش کی تھی جبکہ کئی دفعہ ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی اس طرح کی کوششیں کرچکے ہیں لیکن پھر "یس سر" کی وجہ سے یہ بیلیں منڈھے نہیں چڑھ سکیں۔
کراچی کے عوام نے 1987 کے بلدیاتی انتخابات سے لے کر 2013 کے عام انتخابات تک ایم کیو ایم کو ہمیشہ لبیک کہا لیکن 22 اگست 2016 کے بعد ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے ایم کیو ایم کو شدید نقصان پہنچا۔ دھڑے بندی سے عوام میں اس کی مقبولیت میں زبردست کمی آئی اور 2018 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان قومی اسمبلی کی صرف 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکی جبکہ پی ایس پی قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی۔ 2018 کے انتخابات میں ملک بھر کی طرح کراچی سے بھی پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 14 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی جس پر ایم کیو ایم پاکستان نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مینڈیٹ چھین کر کسی اور کو دیدیا گیا ہے۔ لیکن آج صورتحال پھر تبدیل نظر آرہی ہے محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات کیلئے میدان کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔
"جسے پیا چاہے وہی سہاگن" کے مقولے والی سہاگن پھر بدل چکی ہے اور اس کا مقابلہ اب پرانی سہاگن سے ہے، تین ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ایم کیو ایم پاکستان کو ایک کرنے کی کوششیں اس وقت اپنے عروج پر ہیں اور آوازیں یہی آرہی ہیں کہ تینوں پھر ایک دوسرے کے نکاح میں آنے کیلئے تیار ہیں لیکن نکاح کی چند شرائط ہیں جن پر کام جاری ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان میں واپس آنے والے صرف ایک چیز چاہتے ہیں کہ ان کی واپسی " قابل عزت" ہو۔ قابل عزت واپسی کا فارمولا بھی تقریباً تیار ہے اور واپس آنے والوں کو تنظیمی سیٹ اپ میں ایک دفعہ پھر اہم عہدے دیے جانے کا امکان ہے لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ قیادت کیلئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے نام پر تقریباً اتفاق ہوچکا ہے اور یہ دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے فلم میکر بلال لاشاری کی طرح دی لیجنڈ آف ایم کیو ایم کے فلم میکر کامران ٹیسوری کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اصل کامیابی وہ ہوگی جب متحدہ ایم کیو ایم انتخابی سیاست میں ماضی کی طرح جھنڈے گاڑے گی اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کیونکہ ایم کیو ایم چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے انتقال سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر رواں سال ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان، ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی کو ملنے والے مجموعی ووٹ بھی پی ٹی آئی کے محمود مولوی کو ملنے والے ووٹوں سے دس ہزار کم ہی تھے لیکن اگر 2023 کے انتخابات میں متحدہ ایم کیو ایم نے میدان مار لیا تو پھر کامران ٹیسوری سے یہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا، "نواں آیا اے سوھنیا"۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔