26 دسمبر ، 2022
صحرائے تھر میں خودکشی کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے اور ہر سال اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صحرائے تھر میں بجلی کے اربوں ڈالرز کے توانائی کے منصوبوں سے پاکستان تو بدل رہا ہے لیکن تھر کے باسیوں کی زندگی بدلنے کا نام نہیں لے رہی، احساس محرومی تعلیم کے فقدان معاشرتی ناہمواریوں اور کزن میرج خودکشیوں کے اسباب میں ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔
ہر سال ضلع تھر پارکر میں خودکشی کے واقعات کم ہونے کے بجائے ان میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، گزشتہ پانچ سالوں کے دوران خودکشی کرنے والے 617 افراد میں سے 476 افراد کا تعلق اقیلتی برادری سے ہے، زندگی سے ہار ماننے والوں میں 345 خواتین بھی شامل ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں 78 افراد نے اپنی زندگی ختم کی جبکہ 2018 میں یہ تعداد 100 تک پہنچ گئی، 2019 میں خودکشی کے واقعات میں کچھ کمی واقع ضرور ہوئی لیکن اس برس بھی 84 افراد نے اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لی۔
2020 میں 113 افراد خودکشی کی بھینٹ چڑھ گئے جبکہ 2021 کے دوران 116 واقعات رونما ہوئے اور پھر 2022 کے دوران اب تک 126 افراد موت کو گلے لگا چکے ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ تھری باسیوں کی حالات زندگی میں بہتری کے مواقع، ذہنی جسمانی نشوونما کے لیے کھیلوں کے فروغ اور جدید طریقہ علاج سے خودکشیوں کو روکا جاسکتا ہے۔