07 جنوری ، 2023
نواز شریف کی بیماری ہو یا عمران خان کی بیماری یا گولی لگنے کا معاملہ، میں اپنے اصول کے تحت اس پر بات نہیں کرتا۔ اس معاملے میں متعلقہ لیڈر یا پھر ان کے گھروالے جو کچھ کہتے ہیں، ہمیں اس پر یقین کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن جب اس طرح کے معاملات سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں یا پھر انہیں سیاست کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر اس پر رائے زنی مجبوری بن جاتی ہے ۔
مثلاً جب میاں نواز شریف کی بیماری کے سیاسی پہلو سامنے آگئے تو میں نے اس پر بھی بات کرنی شروع کردی اور اب جب عمران خان صاحب اور ان کے ساتھی اس حملے کوسیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے بلکہ دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے لگے ہیں تو مجبوراً مجھے اس پر بات کرنا پڑ رہی ہے ۔اور میں اپنی بات شروع کرتا ہوں 2014کے دھرنوں سے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان نے نہ صرف اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آبپارہ سے آگے نہیں جائیں گے بلکہ آبپارہ میں بھی اعلانات کرتے رہے کہ میں نے چوں کہ چوہدری نثار علی خان سے وعدہ کیا ہے اس لئے ہم یہاں سے آگے نہیں جائیں گے ۔ پھر اچانک ایک روز عمران خان اور طاہرالقادری نے ڈی چوک جانے کا اعلان کردیا اور اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے پولیس کو روکنے کا حکم دیا ۔
پولیس اور پی ٹی آئی یا عوامی تحریک کے کارکنوں کی لڑائی شروع ہوئی لیکن رات کے وقت اچانک پولیس کو حکم ملا کہ کارروائی روک کر عمران خان اور طاہرالقادری کو ڈی چوک آنے دیا جائے۔عام تاثر یہ تھا کہ یہ چوہدری نثار علی خان کے حکم پر ہوا لیکن صبح پنجاب ہائوس میں میری اور میجر عامر صاحب کی جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ غصے میں آگ بگولا تھے اور وزارت سے استعفیٰ دے رہے تھے۔
ان کا کہنا تھاکہ رات کو وزیراعظم میاں نواز شریف نےانہیںبائی پاس کرکے عمران خان اور طاہرالقادری کو ڈی چوک آنے اور پولیس کو کارروائی روکنے کا حکم دیا جو میرے لئے شرمندگی کا موجب بنا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ دھرنے کا اسکرپٹ لکھنے والوں نے دھرنے کو نتیجہ خیز بنانے کیلئےکم ازکم ایک سو لاشیں گرانے کا پروگرام بنایا تھا اور جب آئی بی نے یہ رپورٹ میاں نواز شریف کو دی تو انہوں نے انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کیلئےرات گئے سیکرٹری داخلہ شاہد خان کے ذریعے پولیس کو پیچھے ہٹنے اور عمران خان وغیرہ کو ڈی چوک آنے کے احکامات چوہدری نثار علی خان کو بتائے بغیر جاری کئے۔2014کے دھرنے کے بارے میں تو یہ آئی بی کی رپورٹ تھی لیکن عمران خان کے اب کی بار کے اسلام آباد آزادی مارچ کے بارے میں پہلے سے فیصل واوڈا جیسے رہنما خبردار کررہے تھے کہ یہ مارچ خونی ہوگا۔
بدقسمتی سے نومبر کے پہلے ہفتے میں جب وہ وزیر آباد سے گزر رہے تھے تو ان کے کنٹینر پر ایک نوجوان نے فائرنگ کردی، جس میں عمران خان تو زخمی ہوگئے لیکن ان کی پارٹی کے ایک کارکن معظم گوندل گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے ۔ عمران خان پر فائرنگ کرنے والے نوجوان نویدکو موقع پر عمران خان کے ایک جان نثار نے دبوچ کر زندہ گرفتار کرلیا اور انہیں عمران خان اور پرویز الٰہی کے زیرکنٹرول پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔اس طرح کے معاملات میں پولیس صرف سرکاری اسپتالوں کی رپورٹ کو قبول کرتی اور پوسٹ مارٹم وغیرہ کیلئےبھی سرکاری اسپتالوں سے رجوع کیا جاتا ہے لیکن قریبی سرکاری اسپتال (جو ظاہر ہے کہ عمران خان کی حکومت کے کنٹرول میں ہے) میں جانے کی بجائے انہوں نے شوکت خانم اسپتال جانے کو ترجیح دی ۔
اگرچہ وفاقی حکومت کا اس معاملے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن عمران خان نےچونکہ پہلے دن سے اس میں اپنے سیاسی مخالفین کو ملوث کرنے کی کوشش کی اسلئے وزیراعظم شہباز شریف نے 8نومبر کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر درخواست کی کہ وہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججز پر مشتمل کمیشن بنا کر عمران خان پر حملے کی تحقیقات کرے لیکن وہ کمیشن آج تک نہیں بنا۔ عمران خان نے حملے کی ایف آئی آر شہباز شریف، رانا ثنااللہ اور ایک حاضر سروس فوجی افسر کے خلاف درج کرانے کی کوشش کی لیکن ان کے اپنے وزیراعلیٰ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔البتہ عمران خان یعنی پرویز الٰہی کی حکومت ،جس میں وزیر داخلہ پی ٹی آئی کے ہیں ،نے وقوعہ کی تحقیقات کیلئےجے آئی ٹی تشکیل دی ۔
یہ جے آئی ٹی عمران خان کی پرویزالٰہی حکومت کے نصف درجن پولیس افسروں پر مشتمل ہے جس کی تشکیل کسی فرد واحد نے نہیں بلکہ پنجاب کابینہ کے لا اینڈ آرڈر کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اتفاق رائے سے کی لیکن اس جے آئی ٹی نے آج تک اپنی حتمی رپورٹ تیار کی ہے اور نہ قوم یا عدالت کے سامنے لائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دو ماہ کے عرصے میں پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی اپنے ہی لیڈر عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی رپورٹ اب تک کیوں تیار نہ کرسکی؟ عمران خان درمیان میں اسلام آباد سے پنڈی منتقل ہونے والے جلسے سے خطاب کیلئے آئے لیکن یہاں سے پھر زمان پارک چلے گئے ۔
زمان پارک میں وہ روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا بیان جاری کرتے یا انٹرویو دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ٹاک شوز کا موضوع بن جاتے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ انہیں قتل کرنا چاہتے تھے تاکہ ایمرجنسی لگانے کیلئے بہانہ تلاش کرسکیں لیکن اگلے روز صبح وضاحتی بیان جاری کرکے پی ٹی آئی مکر گئی اور جب شام کو انہوں نے اس حوالے سے پریس کانفرنس کی تو ان کا براہ راست نام نہیں لیا اور میاں شہباز شریف، رانا ثنا اللہ اور فوج کے بعض افسروں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی طرح وہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے سے قبل یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ حملہ آور ایک نہیں بلکہ تین تھے ۔
وہ اور ان کے حامی اب ایک سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی اپنے سازشی بیانئے کے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیں جس میں ڈی پی او گجرات سید غضنفر علی شاہ کے حکم پر ایس ایچ او ملزم نوید کا اقبالی بیان ریکارڈ کروارہے ہیں۔ اگر ملزم نوید کا اقبالی بیان ریکارڈ کرانا جرم ہے یا پھر اسے پٹی پڑھا کر بیان ریکارڈ کیا جارہا ہے تو یہ ڈی پی او گجرات کی نگرانی میں ہورہا ہے جو نہ صرف عمران خان اور پرویز الٰہی کے ماتحت ہیں۔ عمران خان کے وزیر اعلیٰ چاہیں تو انہیں اسی وقت معطل یا سروس سے برخاست کرسکتے ہیں یا کم ازکم تبادلہ تو کرسکتے ہیں لیکن تادم تحریر وہ گجرات کے ڈی پی او ہیں جبکہ عمران خان صاحب پرویز الٰہی کی بجائے دوسری طرف انگلیاں اٹھارہے ہیں۔
ناطقہ سربگریبان ہے اسے کیا کہئے
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔