18 جنوری ، 2023
پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خودسیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں۔ ن لیگ شریف فیملی، پیپلز پارٹی زرداری ، پی ٹی آئی عمران خان ، جے یو آئی مولانا فضل الرحمان ، اے این پی اسفندیار ولی خان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی محمود خان اچکزئی کی ذاتی جاگیر کی حیثیت رکھتی ہیں، علیٰ ھٰذا القیاس۔
یہ جماعتیں اپنی جماعتوں سے باہر تو اختلاف رائے کا حق مانگتی ہیں اور بجا مانگتی ہیں لیکن خود اپنی جماعت کے اندر اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتیں ۔ اسی طرح پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا نہ ہونا ہے ۔
بہترین طرز حکومت وہ ہوتا ہے جو نچلی سطح پر عوام کی مرضی سے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلایا جائے اور اس کے لئے تمام ترقی یافتہ ممالک میں منتخب مقامی حکومتوں کا نظام رائج کیا جائے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتیں قومی ہوں یا صوبائی ، مقامی حکومتوں کی دل سے دشمن ہیں ۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت کچھ اختیارات صوبوں کو منتقل ضرورکئے گئے لیکن کوئی بھی صوبہ ہو اور کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو ، وہ اختیارات ضلعوں کو منتقل کرنے کو تیار نہیں ۔ مرکزی سطح پر نیشنل فنانس کمیشن کا ایوارڈ تو ہوجاتا ہے لیکن مسلم لیگ کی حکومت ہو، پیپلز پارٹی کی یا پی ٹی آئی کی ، وہ اس کی روح کے مطابق پروونشل فنانس کمیشن کے تحت اضلاع میں وسائل تقسیم کرنے کو تیار نہیں ۔ عمران خان نے پنجاب میں اقتدار میں آتے ہی منتخب بلدیاتی ادارے توڑ دیئے اور ان کی جگہ بیوروکریسی کو مسلط کئے رکھا ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ممکن حد تک لیت و لعل سے کام لیتی رہی ۔ بلوچستان اور پختونخوا میں بھی بلدیاتی اداروں کو مفلوج کرنے کی تمام حدیں پار کردی گئیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارے ہاں بلدیاتی اداروں کے قیام کو کافی سمجھا جاتا ہے حالانکہ ضرورت بلدیاتی نظام کی نہیں بلکہ منتخب مقامی حکومتوں کے نظام کی ہے ۔
ہم ڈسٹرکٹ کونسل اور یونین کونسل کو مقامی حکومتوں کامتبادل سمجھ لیتے ہیں جن کے پاس محدود اختیارات ہوتے ہیں حالانکہ اصل ضرورت مقامی حکومتوں کی ہے ۔ امریکہ ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں لوکل کونسلیں نہیں بلکہ بااختیار بلدیاتی حکومتیں کام کررہی ہیں جس کی وجہ سے وہاں کی جمہوریتیں ڈیلیور کررہی ہیں۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ ان مقامی حکومتوں کے کنٹرول میں ہوتی ہیں۔ گلی نالے یا اسکول وغیرہ سے وفاقی یا صوبائی حکومت کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں صرف سرکاری معاملات ریگولیٹ کرنے اور ملکی یا صوبائی سطح پر قانون سازی کا کام کرتی ہیں ۔
اس لئے وہاں کی پارلیمنٹ میں پیسے والے یا پارلیمنٹ کے ذریعے پیسے کمانے والے نہیں بلکہ قانون سازی میں دلچسپی رکھنے والے ہی پہنچتے ہیں۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کسی حد تک ترقی یافتہ دنیا جیسے مقامی حکومتوں کے نظام کو رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے کچھ تو اسے بیوروکریسی نے چلنے نہ دیا اور پھر مسلم لیگ(ق) نے اقتدار میں آتے ہی اس نظام کو دوبارہ بے دست و پا بنا دیا۔ہم اگر چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی جمہوری نظام ڈیلیور کرے تو اس کے لئے مقامی حکومتوں (نہ کہ بلدیاتی اداروں) کے نظام کو اس کی اصل روح اور اختیارات کے ساتھ رائج کرنا ہوگا اور ارکانِ پارلیمنٹ کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز دینے کا سلسلہ آئینی طور پر ختم کرنا ہوگا۔ اس ہائبرڈ نظام کی وجہ سے ہمارے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز دن رات ترقیاتی فنڈز ہتھیانے اور حلقے کے عوام کو نوکریاں دلوانے میں مگن رہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ پیسے والے لوگوں کیلئے پرکشش جگہیں بن گئی ہیں ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جو برائے نام بلدیاتی نظام رائج ہے ، ہم نے اس کو بھی مذاق بنایا ہوا ہے اور یہاں بھی صوبائی حکومتوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام کے حقیقی نمائندے منتخب نہ ہوں۔ پہلے ہم نے خیبر پختونخوا میں اس مظہر کا مشاہدہ کیا جہاں الیکشن کے دن پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا بیلٹ باکس اٹھائے ہوئے دیکھے گئے اور سرکاری وسائل کے زور سے اکثر جگہوں پر من پسند لوگوں کو مسلط کیا گیا۔دوسری طرف صوبائی حکومت اختیارات نہ دے کر ان کو مفلوج کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے ۔ اب جمہوریت کی سب سے بڑی علمبردار پیپلزپارٹی کے صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا۔ پہلے تو کراچی میں من پسند حلقہ بندیاں کی گئیں اور ایم کیوایم کے بار بار مطالبات کے باوجود اس کو درست نہ کیا گیا۔ پھر بے یقینی کی ایک صورت حال پیدا کی گئی ۔ کبھی معاملہ الیکشن کمیشن میں جاتا اور کبھی عدالتوں میں ۔
الیکشن سے ایک روز قبل تک واضح نہیں تھا کہ 15جنوری کو انتخابات ہوں گے یا نہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی جماعت صحیح مہم نہ چلا سکی۔ کراچی اور حیدرآباد میں گہرے اثرورسوخ کی حامل ایم کیوایم نے انتخابی حلقہ بندیوں پر اعتراض کی وجہ سے بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے ان انتخابات کی ساکھ پہلے دن ہی متاثر ہوگئی۔ پھر جس طریقے سے انتخابات ہوئے اور جس طرح ٹھپے لگانے کی ویڈیوز سامنے آئیں یا پھر اب جس طرح انتخابی نتائج میں تاخیر ہوئی، اس نے جولائی 2018کی سلیکشن کی یاد دلادی ۔ مختصر الفاظ میں ان بلدیاتی انتخابات میں وہ سب کچھ ہوا جو جولائی 2018 کے انتخابات میں ہوا تھا اور اسے خود پیپلز پارٹی بھی الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن کہا کرتی تھی۔
تب صرف پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ سلیکشن نہیں بلکہ الیکشن ہوا ہے۔ اب صرف پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے کہ الیکشن ہوا ہے جب کہ ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کہہ رہی ہیں کہ الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے اصول تو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے فائدے اور نقصان کے مطابق بدلتے رہتے ہیں لیکن اپنا چونکہ اس معاملے سے کوئی مفاد وابستہ نہیں اسلئے اگر 2018کے عمل کو غلط کہا تھا تو اب 2023کے عمل کو بھی غلط ہی کہوں گا۔ میرے نزدیک 2018میں بھی الیکشن کے نام پر سلیکشن اور ڈرامہ ہوا تھا اور اب بھی بلدیاتی الیکشن کے نام پر بلدیاتی سلیکشن یا ڈرامہ ہوا ہے ۔لکھ کر رکھ لیجئے بعینہ اگر ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی وغیرہ کے اعتراض کو پس پشت ڈال کر ان انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والے لوگوں کو مسلط کیا گیا تواس کے نتائج نہایت بھیانک ہو سکتے ہیں ۔ جو کچھ ہوا ہے اس کا بنیادی ذمہ دار الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے اور اسی کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان برائے نام انتخابات کو کالعدم قرار دے کر تمام فریقین کے اعتراضات دور کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کا انعقاد کروائے ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔