13 دسمبر ، 2012
اسلام آباد…جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ججز تقرری کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی رائے حتمی ہو گی، صدر صوابدیدی اختیارات استعمال نہیں کر سکتے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ کسی شخص کی ڈگری جعلی ہو تو صدر اس کی تقرری روک سکتا ہے، عدالت کو صدر کے اقدام پر فیصلہ دینے کا اختیار نہیں۔جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں 5 رکنی خصوصی بینچ اعلیٰ عدلیہ میں ججز تقرری سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔اٹارنی جنرل عرفان قادرنے دلائل میں کہاکہ آئین صدر کو صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے، آئین کے آرٹیکل 48 ون کے تحت صدر کا صوابدیدی اختیار واضح ہے ،کسی شخص کی بد کرداری یا بد عنوانی میں ملوث ہونے کی اطلاع پر بھی صدر تقرری روک سکتا ہے ، اگر ججز کی تقرری کے عمل میں آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو صدر تقرری سے انکار کر سکتا ہے، صدر کو صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کی وجہ تحریر کرنا ہو گی۔ اس سے پہلے صدارتی وکیل وسیم سجاد نے دلائل میں کہاکہ جوڈیشل کمیشن کے پاس ججز کی سینیارٹی کے تعین کا اختیار نہیں،اگر بطور سربراہ مملکت صدر کوئی آئینی سقم دیکھے تو کیا پھر بھی تقرری کر دے، صدر ججز کا تقرر کرنے والی اتھارٹی ہے اس کا کردار رسمی نہیں ہو سکتا، صدر کو کمیشن اور کمیٹی کے فیصلے کی کوئی غلطی نظر آئے تو وہ کیسے عمل کر سکتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو اختیار ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن کو سفارشات دوبارہ غور کے لیے بھجوادے۔ جسٹس طارق پرویز کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ ضروری سمجھتی تو صدر کو ججز تقرر میں کردار دے دیتی۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ عدالت آئین کے کسی حرف یا کوما کو بھی تبدیل نہیں کر سکتی ، آئین کے آرٹیکل 175 اے کو کیسے تبدیل کر دیں۔