28 جنوری ، 2023
پاکستان میں رجیم چینج آپریشن ہوا ہے۔ بالکل ہواہے۔ ڈنکے کی چوٹ پر ہوا ہے لیکن 2022 میں نہیں بلکہ 2018 میں۔ اس رجیم آپریشن میں امریکہ کا بھی ہاتھ تھا کیونکہ سی پیک اور کئی دیگر حوالوں سے نواز شریف نے سارے انڈے چینی باسکٹ میں ڈال دیے تھے اور امریکہ ان پر شدیدبرہم تھا۔
رجیم چینج کا آپریشن فوج، عدلیہ ، الیکشن کمیشن، میڈیا اور نیب نے مل کر کیا۔ الیکشن سے قبل فوج اور ایجنسیوں کے آلہ کار میڈیا پرسنز (جو آج کل بڑے فوج مخالف اور جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں کو اسکرپٹ دے کر نواز شریف، زرداری اور دیگر سیاستدانوں کی کردارکشی کی گئی اور عمران خان کو مسیحا ثابت کروایا گیا۔ ہم جیسے صحافی یا چینلز جو اس کام کے لئے تیار نہ تھے ، ان کا آئی ایس پی آر نے جینا حرام کردیا اور جو آلہ کار بنے انہیں نوازا گیا)۔ اس رجیم آپریشن کی بنیادیں 2010میں رکھی گئی تھیں اور باقاعدہ آغاز 2014کے دھرنوں سے ہوا تھا۔
اسی آپریشن کے تحت ڈان لیکس کا من گھڑت ڈرامہ تیار کیا گیا۔ اسی کے تحت نیب اور ایجنسیوں کو استعمال کرکے الیکٹیلبلز کو دیگر پارٹیوں سے نکال کر پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا۔ رجیم چینج آپریشن کے منظم منصوبے کے تحت سپریم کورٹ سے واٹس ایپ کے ذریعے مخصوص جے آئی ٹی بنوائی گئی۔ ججز کو بلیک میل کرکے نواز شریف وغیرہ کے خلاف من پسند فیصلے دلوائے گئے۔
اسی کے تحت عمران خان کے جرائم کو عدلیہ کے ذریعے صاف کردیا گیا اور بیلنسنگ ایکٹ کے طورپر جہانگیر ترین کو نااہل کیا گیا۔ اسی کے تحت فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے لوگوں کو الیکشن سے قبل گرفتار کروا لیا گیا۔رجیم چینج کے اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے میڈیا کا گلادبایا گیا۔ مجھ جیسے صحافیوں کے لائیو پروگرام بند کروائے گئے۔ آئی ایس پی آر کے ذریعے ہم جیسوں کو نکالنے کیلئے جیو اور جنگ کا ناطقہ بند کردیا گیا۔میرشکیل الرحمان کو عشروں پرانے من گھڑت کیس میں گرفتار کرکے کئی ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا۔
طلعت حسین، نصرت جاوید اور اسی طرح کے درجنوں جینوئن صحافیوں پر پابندیاں لگا کر مین اسٹریم سے آئوٹ کیا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت کی میڈیا ٹیمیں اور آئی ایس پی آر مل کر رجیم چینج آپریشن کے ہم جیسے مخالف صحافیوں کی کردارکشی کرتے رہے ۔ اس پر بھی بس نہ ہوا تو مطیع اللّٰہ جان کو اٹھوایا گیا۔ اسد طور کو مارا پیٹا گیا۔ رضوان رضی اور عامر میر وغیرہ جیسے درجنوں صحافیوں کی اپنے اپنے طریقے سے زبان بندی کی کوششیں ہوئیں۔ ابصار عالم کو گولیاں ماری گئیں اور حامد میر کا کئی ماہ تک پروگرام بند کردیا گیا۔ دوسری طرف وہ چینلز، اینکرز اور یوٹیوبرز جو رجیم چینج کے اس آپریشن میں اسٹیبلشمنٹ کے مہرے بن گئے تھے، انہیں ہر طرح سے نوازا گیا۔
ایک طرف آئی ایس پی آر کی عنایتیں تھیں اور دوسری طرف عمران خان کی حکومت کے لفافے تھے۔ یوٹیوبرز کو سبسکرائبرز تک دلوائے گئے ۔ جس کے جواب میں عدالت، سیاست اور صحافت میں فوج کی مداخلت کی مخالفت کرنے والے صحافیوں کی یہ لوگ عمران خان کے ترجمانوں کے ساتھ مل کر کردارکشی کرتے رہے ۔ انہوں نے پختون تحفظ موومنٹ جیسی انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیم کو میڈیا سے بلیک آئوٹ کی نہ صرف حمایت کی بلکہ عمران خان کے وزیروں کے ساتھ مل کر ان مظلوموں کو انڈین ایجنٹ باور کراتے رہے ۔ رجیم آپریشن کے تجربے کو کامیاب بنانے کیلئے شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال ، خواجہ سعد رفیق ، خواجہ سلمان رفیق، مفتاح اسماعیل اور دیگر سینکڑوں لوگوں کو نیب کے کالے قوانین کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا۔ ایجنسیوں سے ہیروئن اکٹھی کرکے رانا ثنا اللّٰہ کے گلے میں ڈالی گئی ۔
مریم نواز کے کمرے تک کا دروازہ توڑا گیا ۔ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیوایم کا پی ٹی آئی سے جبری اتحاد کرایا گیا۔ غرض اس رجیم چینج کیلئےلاقانونیت، بداخلاقی، انسانی حقوق کی پامالی ، میڈیا کی زباں بندی ، جبری قانون سازی اور ہر معاملے میں فوجی مداخلت کی تمام حدود عبور کی گئیںلیکن رجیم چینج کے ذریعے جس بندے کو وزیراعظم بنوایا گیا ،وہ نہ صرف یہ کہ ڈیلیور نہ کرسکا بلکہ الٹا فوج کیلئےبدنامی کا موجب بن گیا۔ باری باری دوست ممالک کودشمن بنایا اور پھر ان کا اقتدار کا نشہ اتنا بڑھا کہ فوج کو بھی آنکھیں دکھانے لگے ۔ چنانچہ فوج نے اپنی یہ غیرقانونی اور غیرآئینی حمایت ختم کردی ، جسے اس شاطر نے رجیم چینج کا نام دیا۔
پہلے کہا کہ رجیم چینج آپریشن امریکہ نے کیا اور قوم کو اس نام پر گمراہ کرنے اور ورغلانے کی کوشش کی ۔ جب حقائق سامنے آنے لگے تو کہا کہ رجیم چینج آپریشن جنرل قمرجاوید باجوہ نے (جو عمران خان کو اقتدار دلوانے کیلئےرجیم چینج آپریشن کے سرخیل تھے) کیا ہے ۔ پھر زرداری اور نواز شریف پر رجیم چینج آپریشن کا الزام لگانے لگے۔کبھی کہا کہ میڈیامیرے خلاف رجیم چینج آپریشن میں استعمال ہوا۔ اب نوبت یہاں تک آگئی کہ محسن نقوی کو رجیم چینج آپریشن کا ذمہ دار قرار دینے لگے ۔
تماشہ یہ ہےکہ فوج کی پیداوار ، فوج کو سیاست سے بے دخل کرنے کی بات کرکے جمہوریت کا چیمپئن دکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کی گرفتاری کا حوالہ دے کر (واضح رہے کہ علی وزیر ، طاہر داوڑ اور نقیب اللّٰہ محسود کا نام آج بھی نہیں لے رہے ) وہ انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ میڈیا کے سب سے بڑے دشمن اور اپنے دور میں میڈیا پر سب سے زیادہ قدغنیں لگانے والے عمران خان اور ان کے ساتھی ارشد شریف کی شہادت کی آڑ لے کر آزادی صحافت کے چیمپئن بن رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ توبہ تب قبول ہوتی ہے جب پہلے انسان گناہ کا اعتراف کرے۔ عمران خان جمہوریت کے چیمپئن بن سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ پہلے ان سیاسی گناہوں کا اعتراف کریں جو انہوں نے فوج کے کہنے پر کئے اور فوج نے ان کیلئے کئے۔
وہ انسانی حقوق کے چیمپئن بن سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ پہلے اس جرم کا اعتراف کریں کہ ان کا دور انسانی حقوق کے لحاظ سے بدترین دور تھا۔ وہ آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے علمبردار بن سکتے ہیں لیکن پہلے یہ اعتراف گناہ کریں کہ ان کے دور میں من پسند میڈیا کو سب سے زیادہ لفافے دئیے گئے اور آزاد میڈیا کا گلا گھونٹا گیا،اعتراف کے بغیر توبہ قبول نہیں ہوسکتی اور توبہ کئے بغیر کتنی بھی چالاکی اور جادو ٹونے سے کام لیں،عمران خان کا بچنا ناممکنات میں سے ہے ۔کیونکہ مکافات عمل کا قانون اٹل ہے اور انسانوں کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن اللّٰہ کے ہاں چالاکی اور ایکٹنگ نہیں چلتی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔