12 فروری ، 2023
زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان ہر سال ساڑھے 4 ارب ڈالر کا کوکنگ آئل بیرون ملک سے خریدنے پر مجبور ہے جب کہ ساحلی علاقے پام آئل کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔
ملک کا زرعی شعبہ کھانےکا تیل اپنے طور پر پیدا کر نے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کے باوجود یہ منصوبہ برسوں سے لٹکا ہوا ہے۔
پاکستان نیوی کے تحت کراچی میں ہونے والی 'بلیو اکانومی نمائش' میں سندھ کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسٹال پر لوگ نمائش میں رکھے پام کےگچھے کو حیرت سے دیکھتے رہے، پام کے یہ گچھے مقامی درختوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کھانے پکانے کے لیے پام آئل کی بڑی مقدار ملائیشیا اور انڈونیشیا سے خریدتا ہے۔
1996 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے پام آئل کے ایک ہزار پودے ملائیشیا سے منگوا کر ٹھٹہ میں تجرباتی طور پر لگوائے مگر پھر اس منصوبے کو بھلا دیا گیا، 2016 میں اس پر دوبارہ توجہ دی گئی تو پام آئل کے درختوں سے انتہائی حوصلہ افزاء نتائج ملے۔
ماہرین کے مطابق ملائیشیا جہاں سے یہ پودا لایاگیا وہاں اس گچھے کا وزن 30 کلو ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں اس کا وزن 50 کلو تک ہے۔
درختوں پر لگے پھل سے پام آئل حاصل کرنےکے لیے وفاقی حکومت نے 2008 میں مشین کی خریداری کے لیے ٹینڈر دیا ، لیکن پھر معاملہ لٹک لگایا ، 2020 میں سندھ حکومت نے ایک چھوٹی مشین منگوا کر تجرباتی طور پر تیل نکالنا شروع کیا ۔
پکانے ، ادویات اور کاسمیٹکس سمیت پام آئل کے 70 استعمال اور بھی ہیں۔
پام آئل کی کاشت کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے 3 ہزار ایکڑ زمین دینے کے اعلان پر دو سال میں بھی عمل نہیں ہوسکا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کا لاکھوں ایکڑ ساحلی رقبہ پام آئل کی کاشت کے لیے بہترین ہے، لیکن 27 سال بعد بھی پاکستان میں پام آئل کی پیداوار ابھی بھی تجرباتی مرحلے میں ہی ہے، جب کہ بھارت میں 2000 میں اس منصوبہ پر کام شروع ہوا اور اب وہاں 8 لاکھ ایکڑ رقبہ پر پام آئل کاشت ہو رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر سال ساڑھے 4 ارب ڈالر کے خوردنی تیل کی درآمد سے جڑے مقامی کردار ملک میں پام آئل کی پیداوار بڑھانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔