بھارت میں شادی کے خواہشمند کنواروں کے پیدل لانگ مارچ نے نئی بحث چھیڑ دی

30 نوجوانوں نے شادی کی خواہش میں مہادیشور مندر تک 120 کلومیٹر طویل پیدل مارچ کا آغاز کیا — فوٹو: بی بی سی
30 نوجوانوں نے شادی کی خواہش میں مہادیشور مندر تک 120 کلومیٹر طویل پیدل مارچ کا آغاز کیا — فوٹو: بی بی سی

بھارت میں شادی کے خواہشمندکنوارے نوجوانوں کے لانگ مارچ نے ملک میں نئی بحث چھیڑ دی، لانگ مارچ  ملک میں بڑھتے سماجی و معاشی عدم توازن کا نتیجہ قرار دے دیا گیا۔

گزشتہ مہینے جنوبی بھارتی ریاست کرناٹکا کے ضلع منڈایا کے 30 نوجوانوں نے شادی کی خواہش میں مہادیشور مندر تک 120 کلومیٹر طویل پیدل مارچ کا آغاز کیا، جس کے بعد مارچ میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھتے ہوئے 60 تک پہنچ گئی تھی۔

پیدل لانگ مارچ کے آرگنائیز شیو پرساد کا کہنا تھا کہ جب ہم نے مارچ  کا اعلان کیا تو 200 سے زائد نوجوانوں نے رجسٹریشن کر والیا تھابعد ازاں مقامی میڈیا کی نیگیٹو کوریج کی وجہ سے کافی نوجوان مارچ میں شامل ہونے کے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ کرناٹکا کا علاقہ منڈایا ایک زرخیز علاقہ ہے اور یہاں گنے کی فصل کاشت کی جاتی ہے لیکن حالیہ برسوں میں کاشتکاری کے پیشے میں سکڑتی ہوئی آمدنی کے باعث لڑکی والے کاشتکاروں کے رشتے کو بہتر آپشن اور کاشتکاری سے ہونے والی آمدنی کو مستقل اور قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔

مارچ میں شامل 33 سالہ نوجوان ملیشا کا کہنا تھا کہ جب میری عشق کرنے کی عمر تھی تب میں کام کرکے پیسے بنانے میں مصروف رہا، اب پیسے کما لیے ہیں تو شادی کیلئے دلہن نہیں مل رہی ہے، کمانے کے چکر میں میری شادی کی عمر ہی نکل چکی ہے۔

سماجی کارکنان کا کہنا ہےکہ نوجوانوں کو درپیش مسائل ملک میں بڑھتے ہوئے سماجی و معاشی عدم توازن کا نتیجہ ہیں، کاشتکاری کے شعبے وابستہ لوگوں کی آمدنی دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور اپنی بچیوں کے بہتر مستقل کی تلاش کی خاطر لوگ کم آمدنی والے لوگوں کو بہتر آپشن نہیں سمجھ رہے ہیں۔

دوسری جانب کچھ لوگوں کا خیال ہے کرناٹکا کے ضلع منڈایا میں لڑکیوں اور لڑکوں کے شرح میں فرق بھی اس کا ایک سبب ہے کیونکہ علاقے میں لڑکوں کے مقابلے میں  لڑکیوں کی شرح کم ہے۔

 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق علاقے میں  1000 لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 960 ہے جبکہ اس سے قبل 2001 میں یہ تعداد 1000 کے مقابلے میں 971 تھی۔

مزید خبریں :