27 مارچ ، 2023
عمر کے ساتھ ہر فرد کے دماغ میں تبدیلیاں آتی ہیں اور ذہنی افعال بھی تبدیل ہوتے ہیں۔
عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے اور اس کا نتیجہ بڑھاپے میں الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔
مگر کچھ عادات عمر بڑھنے کے ساتھ ذہن کو بھی تیز بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں جس سے ذہنی تنزلی کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
ان عادات کے ذریعے آپ عمر بڑھنے کے باوجود دماغی افعال کو مستحکم رکھنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
نئے دوست بنانے سے دماغ کے وہ افعال بہتر ہوتے ہیں جو یادداشت، توجہ بھٹکنے سے بچانے اور توجہ مرکوز کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
درحقیقت دیگر افراد کے نکتہ نظر کو سننے اور ان کے سامنے اپنی بات رکھنے سے ذہن کو فائدہ ہوتا ہے۔
تناؤ سے دماغ میں کورٹیسول نامی ہارمون خارج ہوتا ہے جس سے واضح طور پر سوچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تناؤ کے باعث سیکھنے اور یادداشت جیسے افعال متاثر ہوتے ہیں۔
ہنسنے کی عادت سے دماغ کو تناؤ سے تحفظ ملتا ہے اور دماغ میں کورٹیسول کی سطح میں کمی آتی ہے۔
فطری مناظر سے ہمارے ذہن کو سکون پہنچتا ہے اور تناؤ میں کمی آتی ہے، درحقیقت صرف کھڑکی سے باہر دیکھنے سے بھی یہ فائدہ ہو سکتا ہے۔
جب آپ گھر سے باہر وقت گزارتے ہیں تو دماغ کو روزمرہ کی مصروفیات کے دباؤ سے بچنے کا موقع ملتا ہے جس سے اس کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے۔
روزانہ ایک ہی ناشتہ کھانے میں کوئی برائی نہیں یا ایک ہی راستے سے دفتر جانے سے بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
انسان عادات کو اپناتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانا پسند نہیں کرتے، مگر کبھی کبھار کچھ نیا کرنا دماغ کے لیے بہترین ہوتا ہے۔
ہفتے میں ایک بار معمولات میں تبدیلی سے دماغ کی کچھ نیا سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔
کسی نئی صلاحیت، زبان یا موضوع کے بارے میں جاننے سے دماغ کے متعدد خلیات کو فائدہ ہوتا ہے۔
اس کے لیے آپ کسی مشغلے کو اپنا سکتے ہیں جیسے کسی ساز کو بجانے سے درمیانی عمر میں بہتر طریقے سے سوچنے میں مدد ملتی ہے۔
ہر نیا کام شروع میں مشکل محسوس ہوتا ہے مگر ہمت مت ہاریں، کام جتنا مشکل ہوگا، دماغ کے لیے اتنا بہترین ہوگا۔
اگر آپ بیک وقت ٹی وی دیکھنے، ٹیکسٹ میسج بھیجنے اور سوشل میڈیا فیڈ پر اسکرولنگ کر رہے ہیں تو یہ ملٹی ٹاسکنگ دماغ کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔
جب ہمارا دماغ ایک وقت میں کئی کام کر رہا ہوتا ہے تو اس کے لیے توجہ مرکوز کرنا، یادداشت کو منظم کرنا اور ایک سے دوسرے کام پر سوئچ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس عادت سے بتدریج دماغی افعال تنزلی کے شکار ہو جاتے ہیں۔
ورزش کرنے سے جسم کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
ورزش کرنے سے سوچنے اوردلائل پیش کرنے جیسی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں کیونکہ جسمانی سرگرمیوں سے دماغ کے لیے خون کا بہاؤ بڑھتا ہے۔
اس مقصد کے لیے روزانہ کم از کم 30 منٹ کی معتدل ورزش بہتر ہوتی ہے۔
جب آپ نیند کی کمی کے شکار ہوتے ہیں تو دماغ کے لیے ایک عام کام بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
نیند کی کمی کے شکار ہونے پر توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے جبکہ یادداشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تو اچھی دماغی صحت کے لیے روزانہ 7 سے 9 گھنٹے نیند ضروری ہوتی ہے۔
درمیان عمر میں زیادہ جسمانی وزن اور بڑھاپے میں ناقص دماغی صحت کے درمیان تعلق دریافت کیا گیا ہے۔
زیادہ چکنائی اور چینی والی غذاؤں کے استعمال سے بھی دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پھل، سبزیاں، دالیں، مچھلی اور زیتون کے تیل جیسی مخصوص غذائیں دماغ کے لیے بہترین ہوتی ہیں۔
روزانہ ایک کپ چائے یا کافی پینے سے بھی دماغ کو فائدہ ہوتا ہے۔
تمباکو میں متعدد ایسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو دماغ کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تمباکو نوشی سے ذہنی تنزلی اور ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اگر دل کی صحت خراب ہو تو دماغی مسائل جیسے یادداشت کی کمزوری کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
جسمانی وزن میں اضافے سے خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں جس سے دماغ کے لیے خون کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کو دماغی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاسکتا ہے۔
اگر آپ کو ڈپریشن کا سامنا ہے تو اس سے دماغی تنزلی کی رفتار بڑھ سکتی ہے۔
ڈپریشن سے توجہ مرکوز کرنے اور فیصلے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا۔
یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد کو ڈاکٹروں سے رجوع کرکے علاج کرانا چاہیے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔