سیاسی بونے اور انکا مستقبل

ملکی سیاسی صورتحال پر 'سیاسی بونے اور انکا مستقبل' کے عنوان سے مضمون لکھنے کا خیال ابھی میرے ذہن میں آیا ہی تھا کہ اچانک میرے آفس ڈیسک پر موجود ٹی وی پر لگا نیوز چینل تبدیل ہوا اور پی ٹی وی لگ گیا۔

ایک لمحے کیلئے میں حیران ہوا کہ آیا ہمارے ہاں ٹی وی کے سافٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ ہونے لگے۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو میرے دفتر کے ساتھی نے ریموٹ کنٹرول سے اپنے ڈیسک پر موجود ٹی وی کا چینل تبدیل کیا تھا اور اس کے اثرات میرے ٹی وی نے بھی جھٹ پٹ قبول کرلیے تھے۔

یہی کچھ آج کل ہماری سیاست میں بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنےوالے لیڈروں کے سافٹ ویئر اس قدر تیزی سے اپ ڈیٹ ہو رہے ہیں کہ ہر نیا سورج طلوع ہوتا ہے تو درجنوں کی تعداد میں ایم این ایز، ایم پی ایز اور ٹکٹ ہولڈرز اپنی راہیں عمران خان سے جُدا کرتے نظر آتے ہیں۔

کورکمانڈر کا گھر یا جناح ہاؤس کو آگ تو 9 مئی کو لگائی گئی تھی ، طیاروں کے ماڈلز تو مئی کے پہلے عشرے میں نذر آتش کیے گئے تھے، شہید فوجیوں کے مجسموں کی توہین ہوئے تو اب دوسرا عشرہ گزرنے کو آیا،تو یہ سافٹ ویئر اب کیوں اپ ڈیٹ ہورہے ہیں؟

شاید اس تاخیر کی دو وجوہات ہیں۔

11 ستمبر کو امریکا پر طیارہ حملوں کے روز مجھ سمیت بہت سے لوگ ایسے تھے جنہیں اُس واقعہ کی سنگینی کا احساس تو تھا مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ امریکا ان حملوں کے جواب میں افغانستان کو تاراج کر دے گا اور پھر جنگوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔

10 برس پہلے جب مسافر طیارے میں پہلی بار میں نیویارک کی فضاؤں میں داخل ہوا اور اپنی آنکھوں سے وہ تمام بلند وبالا عمارتوں کی اسکائی لائن دیکھی تو اندازہ ہوا کہ دہشت گردوں نے امریکا کی کس اقتصادی شہہ رگ پر ضرب لگائی تھی اور کیوں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ان حملوں کا غصہ جب امریکا نے افغانستان پر نکالا تو نہ صرف نیٹو بلکہ حریف روس بھی امریکا کا ساتھ دیے بنا نہ رہ سکا۔

سانحہ 9 مئی بھی ایسا ہی دن تھا۔ پی ٹی آئی قیادت کی غلطی یہ تھی کہ وہ اس واقعہ کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں لگا سکی کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر لیڈروں نے سامنے آکر واقعات کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔گرفتاریاں شروع ہوئیں تو دیدہ دلیری دکھائی، وکٹری کے نشان بنائے اور عمران خان کا ساتھ تادم مرگ دینے کی بڑھکیں ماریں۔

خدا جانے کس کا ضمیر کیسے جاگا یا اُسے خواب خرگوش سے کس نے جگایا؟ اتنا طے ہے کہ سب کے جملے ایک جیسے ہیں اور یہ ضمیر اس وقت بھی جاگا ہے جب پاکستان تحریک انصاف کا بحیثیت سیاسی جماعت مستقبل تاریک ہوچکا ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کہلانے والی پی ٹی آئی کے دو ہفتوں ہی میں تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ جب ملک کا ضمیر جھنجوڑنے والے شرمناک حملے کیے جارہے تھے، عمران خان کو ان کی لمحہ بہ لمحہ اطلاع نہ پہنچ رہی ہو۔

بحیثیت پارٹی چیئرمین عمران خان کو سامنے آکر یہ واضح پیغام دینا چاہیے تھا کہ انہوں نے لاکھ کسی کو 'ڈرٹی ہیری' کہا ہو یا 'میر جعفر' اور 'میر صادق' جیسے القاب سے نوازا ہوا یا 'مسٹر ایکس' اور 'مسٹر وائی' کہہ کر تمسخر اڑایا ہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کی سلامتی کی ضامن فوج اور جانیں نچھاور کرنے والے شہداء  کی اس طرح توہین کی جائے۔

ہمارے ہاں لیڈروں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خوشامدی ٹولے کو ہی اپنا دست راست بناتے ہیں، تعمیری تنقید انہیں کھلتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے مخلص دوستوں سے محروم ہوجاتے ہیں جو غلطی پر بروقت ٹوک سکیں اور ناجائز اقدام کی طرف بڑھتا ہاتھ روک سکیں۔

ڈرٹی ہیری جیسے الفاظ اپنے لیڈر سے سن کر ان پر خوش ہونے والے اور اداروں کا تمسخر اڑانے والے دیگر لیڈر کس طرح عمران خان سے پہلے سانحہ 9 مئی کی مذمت کرتے؟ نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کی قیادت زمینی حقائق سمجھ ہی نہ سکی اور اس گمان میں رہی کہ جی ایچ کیو پر حملے کرنیوالے 'حقیقی آزادی کے مجاہد'قرار پائیں گے۔

اب کسی کا نشہ حوالات کی سیر سے اُترا ہے تو کسی کا نشہ گرفتاری کے خوف سے۔بعض کے بارے میں تو مائیکرو سافٹ بھی حیران ہوگا کہ ان کا سافٹ ویئر دوسروں کو دیکھ کر ہی یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے اپ ڈیٹ ہوگیا۔

نوبت یہ آئی ہے کہ عمران خان کو انصافیوں کے نام پیغام میں کہنا پڑا کہ ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ نہیں ہوا یعنی' میں پی ٹی آئی نہیں چھوڑ رہا'۔ زمینی حقیقت سے دوری کا عالم یہ ہے کہ ان حالات میں بھی کہ جب فون پہ فون ملانے کے باوجود اپنے ہی پارٹی لیڈر عمران خان کے ہاتھ نہیں آرہے، انہوں نے سات رکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کر دیا ہے۔

یقینی طورپر کہا جاسکتا ہےکہ عمران خان کا یہ اقدام ان سات لیڈروں کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے سے بچانے کے لیے ان کے ذہنوں میں وائرس ڈالنے کی کوشش ہے۔

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اپنا جانشین بنانے کا اعلان بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس سے خدشہ ہے کہ کہیں پی ٹی آئی کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الٰہی کا سافٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ نہ ہوجائے۔

معاشرے کے جس ناسور کو ختم کرنے کے نام پر پی ٹی آئی بنائی گئی تھی، اس میں شک نہیں کہ اس 'لالی پاپ' نے ملک کے بڑے طبقے کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ پی ٹی آئی کا پٹکا گلے میں ڈال کر سب ہی خود کو 'انقلابی' سمجھ بیٹھے تھے مگر ان میں سے زیادہ تر اپنے قد سے بڑے ہوگئے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے زیادہ تر رہنما کہہ رہے ہیں کہ انہیں سیاسی مستقبل کا پتا نہیں، جس سے جہاں بن پارہا ہے،وہاں رابطہ کرکے اپنی جگہ بنانے کی فکر میں ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ ' پہلے 'خود کو قابل بناؤ،پھر تمنا کرو'۔مگر بقول فواد چوہدری کے 'سب پارٹیوں کا نظریہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ برسراقتدار آؤ'۔

یہی کج فہمی ہمارے ہاں اکثر لیڈر نہیں سیاسی بونے اور کٹھ پتلیاں پیدا کرنے کا سبب بنتی رہی ہے اور یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔