کیا نوازشریف ستمبر میں وطن آئیں گے؟

سابق وزیراعظم کے راستے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ اب ستمبر کے وسط میں دور ہورہی ہے یعنی نوازشریف وطن لوٹنا چاہیں تو اب ستمبر، ستمگر نہیں ہوگا— فوٹو: فائل
سابق وزیراعظم کے راستے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ اب ستمبر کے وسط میں دور ہورہی ہے یعنی نوازشریف وطن لوٹنا چاہیں تو اب ستمبر، ستمگر نہیں ہوگا— فوٹو: فائل

وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے عوام دوست بجٹ نے مسلم لیگ ن کی مقبولیت کا گراف بہتر کیا ہے مگر پچھلے چند ماہ میں کئی ایسے چیلنجز سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے اس پارٹی کے قائد میاں نوازشریف کی عام انتخابات سے پہلے وطن واپسی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ الیکشن کب ہوں گے تاہم اکتوبر یا نومبر میں انتخابات کرائے جانے ہیں تو دو سے تین ماہ پہلے عبوری حکومت کا قیام لازم ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت زیادہ سے زیادہ اگست کے آخر یا ستمبر کے وسط تک قائم رہے گی۔

میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے لیے ستمبربہتر ہے یا اکتوبر، یہ فیصلہ تو مسلم لیگ ن کی قیادت کرے گی تاہم یہ واضح ہے کہ انتخابات سے کم سے کم ایک ماہ پہلے میاں نوازشریف وطن واپس نہ آئے تو ن لیگ کے لیے مؤثر انتخابی مہم چلانا ناممکن ہو جائے گا۔

آزاد کشمیر کے علاقے باغ کے ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ضیا القمر کے ہاتھوں پی ٹی آئی کے کرنل ضمیر خان اور ن لیگ کے امیدوار مشتاق منہاس کو شکست کے بعد ن لیگ کے حلقوں میں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ انتخابی مہم چلانے کے لیے پارٹی قائد کی موجودگی ضروری ہے۔

عام انتخابات میں ن لیگ کو پنجاب میں اصل چیلنج مرحوم پی ٹی آئی کے تابوت سے نکل نکل کر 'استحکام پاکستان پارٹی' بنانے والوں سے ہے۔ اس پارٹی میں یوں توبعض بے ضرر ہیں مگر کئی الیکٹیبلز  بھی ہیں اور ایسے بھی جو پیسہ پانی کی طرح بہا کر گڑے مردوں میں جان ڈال سکتے ہیں۔

کچھ عرصے سے استحکام پاکستان کے نام پر ریاست کی حمایت میں ریلیاں نکلتی تو دیکھی گئی تھیں مگر شاید ہی کسی کو گمان ہوا ہو کہ اس پُرکشش نام کی سیاسی جماعت بھی ابھرے گی۔

9 مئی کو  پی ٹی آئی کے انتقال پر عام تاثر یہی تھا کہ پارٹی کی تجہیز وتکفین کے بعد موسمی پرندے اُڑ کر ن لیگ اور  پیپلزپارٹی کی مچان کا رُخ کریں گے تاہم صورتحال نے وہی رُخ اختیار کیا جس کا مختلف سیاسی جماعتوں کے زیرک رہنماؤں کو خدشہ تھا۔

اب ہر گزرتے دن لوگوں کے ذہنوں میں سوال پیدا ہورہے ہیں کہ کسی نے ہنکایا ہے یا ان سب کی سوچ، ذہن اور ضمیر ایک جیسے ہیں جو ملک کے کونے کونے سے موسمی پرندے اُڑ کر ایک ہی 'مستحکم' اڈے پر بیٹھ رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی اس پارٹی کو لاکھ 'ڈیڈ آن آرائیول' یعنی عام لفظوں میں 'مردہ گھوڑا' کہیں، یہ تصور غلط نہیں کہ اس جماعت کی منڈیر پراسی طرح پرندے جمع ہوتے رہے تو آئندہ مرکز نہ سہی پنجاب حکومت بنانے میں اس جماعت کا کردار فیصلہ کن ہوسکتا ہے۔

چوہدری پرویزالہٰی نے پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کی حسرت پوری کرنے کیلئے ق لیگ قربان نہ کی ہوتی تو کیا پتہ یہ 'استحکام' ق لیگ ہی کو نصیب ہوجاتا اور اس بار ق لیگ کہیں بڑے پلیٹ فارم سے ن لیگ کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی۔

اگرچہ خواجہ آصف جیسے سینیئر رہنما ن لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان ظاہر کررہے ہیں تاہم ماضی کی حریف پیپلزپارٹی سے اتحاد بنا کر ن لیگ پہلے ہی اتحادی حکومت چلارہی ہے۔ اب 'استحکام پاکستان پارٹی‘ سے بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی گئی تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ ن لیگ کس نظریہ پر ووٹ مانگے گی؟

شاید اسی لیے میاں نوازشریف نے اس معاملے پر ابھی اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا کہ استحکام پاکستان پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی یا الیکشن نتائج دیکھنے کے بعد اتحاد۔

'استحکام پاکستان پارٹی' کی صورت میں منڈلانے والا خطرہ اپنی جگہ، ن لیگ کے بعض اپنے بھی ایک سال سے اکھڑے اکھڑے سے ہیں۔ عوامی بجٹ بنانے میں ناکام مفتاح اسماعیل ہوں یا میاں نوازشریف کی بدولت وزیراعظم بننے والے شاہد خاقان عباسی، دونوں ہی پارٹی پالیسیوں پر اس انداز میں تنقید کرتے رہے ہیں جیسے یہ بھی کسی مچان کی طرف اڑنے کے لیے پر تولے بیٹھے ہیں۔

خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ 'استحکام پاکستان' کے بعد مفتاح اسماعیل، شاہد خاقان عباسی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے 'ری امیجننگ پاکستان' کا کیا ہوگا؟ مگر یہ سب پر واضح ہے کہ ن لیگ کی قیادت شہباز شریف نے کی تو کیا ہوگا؟

یہ بات اپنی جگہ کہ پچھلے چند سالوں میں مریم نواز نے سیاست میں اپنی جگہ بنائی ہے مگر وہ میاں نوازشریف کا کسی طور متبادل نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ نوازشریف نے انتخابی مہم کی قیادت نہ کی تو یہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ اچھی بات یہ ہے کہ نوازشریف کی راہ میں اب وہ روڑے نہیں، سیاسی فضا بھی سازگار ہے۔

ملک آئی ایم ایف کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہونے اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کےدور میں عوام دوست، کاروبار دوست، ترقی کی جانب گامزن کرنیوالا اور گرین بجٹ بنا کر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے نوازشریف کی واپسی کی راہ مزید آسان بنادی ہے۔

مختلف مقدمات کا سامنا کرنیوالے سابق وزیراعظم کے راستے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ اب ستمبر کے وسط میں دور ہورہی ہے یعنی نوازشریف وطن لوٹنا چاہیں تو اب ستمبر، ستمگر نہیں ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔