گورنر ہاؤس یا ٹیسوری ٹیمپل؟

تیرہ مئی کونصب کی گئی یہ امید کی گھنٹی رات بارہ بجے سے صبح 8 بجے تک کتنے ہی لوگ بجاتے ہیں۔ فوٹو فائل
تیرہ مئی کونصب کی گئی یہ 'امید کی گھنٹی' رات بارہ بجے سے صبح 8 بجے تک کتنے ہی لوگ بجاتے ہیں۔ فوٹو فائل

سندھ کے گورنر محمد کامران خان ٹیسوری نے گورنر ہاوس کو بڑی حد تک ٹیسوری ٹیمپل میں تبدیل کردیا ہے۔ اس آستانے پر اب نہ صرف عوام 'زنجیرعدل' کھینچتے نظر آتے ہیں بلکہ غیر ملکی سفارتکار بھی گورنر سے ملنے آئیں تو گھنٹی بجا کر تصاویر کیمروں میں محفوظ کیے بنا نہیں رہ پاتے۔

تیرہ مئی کونصب کی گئی یہ 'امید کی گھنٹی' رات بارہ بجے سے صبح 8 بجے تک کتنے ہی لوگ بجاتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیرکی جانب سے محل میں لگائی 'زنجیرعدل' کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فریادی اپنے ساتھ ہوئے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے اُسے بجاتا تھا، یعنی یہ بات طے تھی کہ اگر کسی کو لُوٹ لیا گیا ہو یا اس کا عزیز قتل کردیا گیا ہو تو وہ کتنی بار گھنٹی بجائے گا، دربان یہ سب نوٹ کرتے تھے اور  پھر سوالی کو شنوائی کے لیے بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔

دوکروڑ سے زائد آبادی کے حامل کراچی کے مکین اگر صرف موبائل فون ڈکیتیوں کی شکایت کرنے گورنر ہاؤس آجائیں تو شاید اس گھنٹی سے پیدا ارتعاش پورے شہر میں سنائی دینے لگے، ممکن ہے اسی لیے بہت سے لوگ ڈاکوؤں کو دل ہی دل میں کوس کر گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں ورنہ بھلا ہو سندھ حکومت کا کہ شہر کے کئی کونوں سے یہاں تک ایئرکنڈیشنڈ بس میں آنا جانا اب 100 روپے کی مار  رہ گیا ہے۔

گورنر ہاؤس میں ہزاروں لوگوں کی آؤ بھگت کیسے کی جاتی ہے؟

لوگوں کو غالباً یہ بھی اندازہ ہے کہ گورنر کے پاس زیادہ اختیارات نہیں۔گورنر ہاؤس کا سالانہ بجٹ صرف تین کروڑ روپے ہے یعنی اتنی رقم جو شاید پروٹوکول اور کھانے پینے کے اخراجات پر ہی خرچ ہو جاتی ہو۔ سوال یہ ہے کہ پھر گورنر ہاؤس میں ہزاروں لوگوں کی آؤ بھگت کیسے کی جاتی ہے؟

ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ عیدالفطر پرگورنر ہاؤس میں ہزاروں خواتین کو مفت مہندی لگائی گئی اور چوڑیوں کے 80 ہزار سیٹ تقسیم کیے گئے۔ ایسا ہی رہا تو کیا بقر عید پر بکرے یا کم سے کم بکروں کی رانیں بانٹی جائیں گی؟

ویسے گورنر سندھ کو بخوبی اندازہ ہے کہ شہر میں بکرے کی ران روسٹ کہاں کرانی چاہیے۔ آخر وہ یکم رمضان سے آخری روزے تک نیوکراچی، سُرجانی، فیڈرل بی ایریا، طارق روڈ، نمائش، برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ اور بوٹ بیسن تک ہر علاقے میں سحری کر چکے ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ رمضان کے صرف پہلے 6 روز میں گورنر ہاؤس میں 30 ہزار سے زائد افراد کو افطار کرایا گیا تھا۔ سوال پھر وہی ہے کہ اخراجات پورے کہاں سے ہوتے ہیں؟

گورنر ٹیسوری کی جانب سے نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر میں مستحق افراد کو کارڈ بنا کر ایک لاکھ راشن تھیلے بانٹنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ مختلف اشیا پرمشتمل 27 کلو وزنی تھیلے کے بارے میں گورنر کا دعویٰ ہے کہ وہ پانچ افراد پر مشتمل گھرانے کی ایک ماہ کی ضروریات پوری کرے گا۔کوئی شخص کامران ٹیسوری ہی پر اس قدر مہربان کیوں ہے کہ خود سامنے آنے کی بجائے یہ بیج بھی گورنر کے سینے پہ سجا دیا؟

گورنر ہاؤس میں کنونشن سینٹر بھی زیر تعمیر ہے اور مارکی بنا کر 50 ہزار نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کورسز کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ چار لاکھ سے زائد درخواستیں جمع کی جاچکی ہیں اور اب انٹرویو لینے کی تیاری ہے۔ لوگوں کو یہ سوچنا غیرفطری نہیں کہ سندھ کے34 ویں گورنر کے پاس ایسا کیا چمتکار ہے کہ یہ اخراجات بھی اٹھالیے جائیں گے؟

عشرت العباد کے دور میں گورنر ہاؤس سندھ کا منظر یکسر مختلف تھا

کامران خان ٹیسوری کو لاکھ تمغہ امتیاز ملا ہو، کامیاب تاجر ہونے کے سبب وہ 9 بار بہترین ایکسپورٹرز ٹرافی بھی لے چکے ہوں، ایک بار گولڈن سن آف دی کنٹری بھی بن گئے ہوں مگر آٹھ ماہ میں یہ سب کچھ ہوا کیسے؟

گورنر ٹیسوری کوئی منجھے ہوئے خاندانی سیاستدان نہیں۔ ان کا سیاسی کیرئیر محض ایک عشرے پر محیط ہے۔ ایم کیوایم میں وہ کتنی مشکل سے قبول کیے گئے، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایسے شخص کے گورنر بن کر راج کرنے سے ایم کیوایم کے سرکردہ رہنماؤں کے دلوں پر کیا بیتتی ہوگی، یہ تصور بھی محال نہیں۔

نچلے اور متوسط طبقے کی جماعت ایم کیوایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے چودہ برسوں پر محیط دور میں گورنر ہاؤس کا منظر یکسر مختلف تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کامران ٹیسوری نے پچھلے برس 10 اکتوبر کو جب عہدے کا حلف اٹھایا تو ان کے ڈیل ڈول، بل کھاتی مونچھوں اور بکھرے گھنگھریالے بالوں کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی اور گورنر سندھ میں فرق

قاسم کے ابا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح سیاستدانوں کے نام بگاڑنے میں ماہر ہیں، انہوں نے تو کامران ٹیسوری کو پنجابی فلموں کے ' مولا جٹ' سے تشبیہ دیدی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ قاسم کے ابا نے شاید مولاجٹ کی کوئی فلم دیکھی ہی نہیں کیونکہ مولا جٹ کا کردار ایک دیومالائی ہیرو کا تھا جو نوری نت جیسے جلاد صفت افراد کے ہاتھوں ستائی عوام کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کے لیے مشہور تھا۔

قاسم کے ابا کو شاید یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ فلم مولاجٹ کے مصنف ناصر ادیب اور  پروڈیوسر محمد سرور بھٹی نے یہ کردار 1970 کے اواخر میں اس وقت تخلیق کیے تھے جب ملک کے پہلے عوامی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیت کو مُحسن کش آمر ضیا الحق نے گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا تھا۔ بدترین سینسر زدہ معاشرے میں لوگوں تک پیغام پہنچانے کے لیے گھڑا گیا کردار مولاجٹ اصل میں ذوالفقار علی بھٹو تھے اور نوری نت درحقیقت ضیاالحق تھا۔

قاسم کے ابا اور کامران ٹیسوری میں یہی فرق کافی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنائیں گے مگر وہ اسی وزیراعظم ہاؤس میں گاڑی کے بجائے ہیلی کاپٹرسے آتے رہے،کامران ٹیسوری نے گورنر بننے سے پہلے کوئی سہانا سپنا نہیں دکھایا تھا مگر مخیرحضرات کی مدد سے چند ماہ میں ہی گورنرہاؤس کا نقشہ بدل دیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔