بلاگ
Time 08 جولائی ، 2023

امریکا یا چین : پاکستان کسےدوست بنائے؟

پاکستان اس ماہ سی پیک معاہدے پردستخط کی دسویں سالگرہ منا رہا ہے۔ اس عشرے میں کروڑوں ڈالر مالیت کے سیکڑوں منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے ہیں۔ ہر گزرتے سال یہ سوال بھی سنجیدہ نوعیت اختیار کررہا ہے کہ اس کوریڈور نے پاکستان کو امریکا کے مقابلے میں چین سے کس قدر قریب کردیا ہے اور اس کےاثرات کیا ہوں گے؟

امریکی حکام بظاہر کہتے رہے ہیں کہ انہیں پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی بڑھتی پینگھوں پر اعتراض نہیں۔ نہ ہی وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو چُنا جائے تاہم اس بات پر برملا اصرار کیا جاتا ہے کہ چین سے پاکستان یہ مطالبہ کرے کہ وہ تجارتی معاملات میں شفافیت اختیار کرے۔

سفارتی انداز میں کہی جانیوالی یہ باتیں اپنی جگہ، چین کا مستقل اور تیزی سے اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرنا، امریکا کے لیے تشویش کا سبب ہے کیونکہ جو ملک آج معاشی قوت ہے وہ کل تکنیکی اور فوجی قوت بھی بن گیا تو امریکا کیلئے سپرپاور کی حیثیت برقرار رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔اسی لیے پہلے مرحلے میں جنوب ایشیا اور مشرقی ایشیا پر اپنا غلبہ قائم کرنا امریکا کی ترجیح ہے ۔

امریکا کےسابق معاون وزیر خارجہ برائے مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل بریگیڈیئرجنرل ریٹائرڈ ڈیوڈ اسٹلویل نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مقابلہ بڑے انفراسٹرکچر بنانے کا نہیں بلکہ اقدار کا ہے'۔

ڈیوڈ اسٹلویل کے مطابق دو باتیں امریکا کے لیے یکسر ناقابل قبول ہیں، ایک یہ کہ ممالک چین کو خوشحالی اور امریکا کو سکیورٹی کے طورپر ساتھی بنائیں اور دوسرے یہ کہ بحرالکاہل کو امریکا اور چین کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔

امریکا کیلئے اس انڈوپیسیفک ریجن کی اہمیت کئی وجوہات کی بنا پر ہے۔ صرف معاشی لحاظ ہی سے دیکھیں تو اس خطے اور امریکا کی 'دوطرفہ تجارت کا حجم سن 2020 میں پونے دو کھرب ڈالر تھا' اور 'یہاں سے امریکا میں 900 ارب ڈالر کی غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری' کی جاتی ہے۔ دنیا کی نصف آبادی کے حامل اس خطے میں دنیا کی سات بڑی افواج بھی موجود ہیں۔

اس خطے پر بالادستی کیلئے امریکا نے فروری 2022 میں انڈو پیسیفک اسٹریٹجی کا اعلان کیا تھا۔ اس نئی حکمت عملی میں امریکا جنوب ایشیا میں اپنے کوسٹ گارڈ کی تعداد بڑھانا چاہتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھارت کو جنوب ایشیا اور بحرہند کی طاقت بتایا اور ساتھ ہی بھارت کو خطے میں سکیورٹی فراہم کرنیوالے ملک کے طورپر ابھارا جارہا ہے۔

پالیسی پیپر میں بھارت کا نام ایک درجن بار لینے کے باوجود پاکستان کا نام حاشیے میں بھی نہیں۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف پاکستان سے لیا گیا تھا، اب چین کے خلاف بھارت سے لینے کی کوشش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کیخلاف پاکستان کو علاقے کا چوہدری تو نہیں بنایا گیا تھا مگرچین کیخلاف بھارت کو یہ درجہ ضرور دیا جارہا ہے۔

بھارت خطے کا چوہدری بنا دیا جائے تو پاکستان کی تشویش جائز ہےکیونکہ نریندر مودی دور میں کشمیر پر یکطرفہ اقدامات نے سنگین صورتحال پیدا کی ہے اور دوطرفہ تنازعات دور کیے جانے کا دور دور تک امکان نہیں۔ یہ الگ بات کہ واشنگٹن کا مؤقف ہےکہ پاک بھارت تنازعات کو بات چیت سےحل کیا جانا چاہیے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا پاکستان اوربھارت کے تعلقات چین کی قیمت پر ٹھیک ہوسکتے ہیں اور اگر یہی قیمت ہے تو اسکا پاکستان کو فائدہ ہوگا یا کہیں بڑا نقصان؟

یہ حقیقت سہی کہ اپنے قیام سے آج تک پاکستان ہمیشہ امریکا کا اتحادی رہا ہے تاہم حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پچھلے چند عشروں میں چین سے قربت بھی تیزی سے بڑھی ہے۔ یہ دوستی معیشت اور دفاع دونوں ہی میں مدد گار ثابت ہورہی ہے۔ ایسے میں پاکستان سے یہ مطالبہ کہ وہ امریکا یا چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، اسلام آباد کو پُل صراط سے گزارنے کے مترادف ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی 90 فیصد تعداد ان ممالک میں آباد ہے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ یہی ممالک تجارت اور امداد کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ مگر یہ اپنی جگہ ہے کہ امریکا کیلئے  یہ ممکن ہی نہیں کہ نئی دہلی کے مقابلے میں اسلام آباد کو دفاعی اور اقتصادی قوت دی جائے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی دور حکومت میں سی پیک کو رول بیک کیا جانا محض کج فہمی نہیں، سمجھ سے بالا تر فاش غلطی نظر آتا ہے۔

بنیادی وجہ یہ ہےکہ امریکا کے برعکس پاکستان کے لیے چین ایک ایسا دوست ہے جس نے سی پیک کی صورت میں معاشی ریڑھ کی ہڈی فراہم کی اوردفاع بھی قابل رشک بنایا ہے۔عالمی امور میں سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کو بھارت پر فوقیت دی گئی۔

امریکا اور چین دونوں ہی کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے شاید اسی لیے وزیرخارجہ بلاول بھٹو کا ایک قدم امریکا میں ہے تو دوسرا چین میں۔ ایک طرف شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کی جارہی ہے تو دوسری جانب کمبوڈیا جا کر آسیان سے تعلق مضبوط بنانے کی بات کی گئی اور اُس جاپان کا بھی دورہ کیا گیا جو پاکستان کے ساتھ مل کر 'آزاد اور کھلے انڈو پیسیفک' کیلئے اقدامات چاہتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔