بلاگ
Time 13 جولائی ، 2023

آئی ایم ایف اورقاسم کے ابا

یہ پی ٹی آئی کی بدقسمتی ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
یہ پی ٹی آئی کی بدقسمتی ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔

ملک کے ایک اہم ترین وزیر سے تقریبا ساڑھے چار ماہ پہلے بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو حکومت نے گرفتار کیا تو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے امداد ملنے کا امکان ختم ہوجائے گا۔ یہ بات میں نے وزیرصاحب کو اس وقت کہی تھی جب قاسم کے ابو کے گھر کے گرد پولیس گھیرا تنگ کر رہی تھی اور کسی بھی وقت چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرنے کی تیاری تھی۔

یہ وہ وقت بھی تھا کہ شہباز حکومت یقین کیے ہوئے تھی کہ تمام تر مطالبات پورے کیے جانے کے سبب آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کی رقم فراہم کردے گا مگر آقاؤں کے تیور بتا رہے تھے کہ یہ بیل ایسے منڈیر نہیں چڑھے گی۔

نہ جانے حکومت نے کس بات کی پیش بینی کی کہ وہ گرفتاری جس سے خبردار کیا تھا، نہیں کی گئی، نتیجہ یہ کہ دیر تو ہوئی مگر اب قسط کی تھوڑی بہت رقم ملنے کا امکان روشن ہو گیا ہے۔

نہ جانے حکومت نے کس بات کی پیش بینی کی کہ وہ گرفتاری جس سے خبردار کیا تھا، نہیں کی گئی— فوٹو: فائل
نہ جانے حکومت نے کس بات کی پیش بینی کی کہ وہ گرفتاری جس سے خبردار کیا تھا، نہیں کی گئی— فوٹو: فائل

قانونی لحاظ سے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری اہم ہے یا نہیں، یہ قانون دان جانیں مگر واضح ہے کہ بعد میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ 9 مئی میں مرکزی کردار چیئرمین پی ٹی آئی کا تھا کیونکہ وہ عوام کو فوج کے خلاف اُس وقت سے اُکسا رہے تھے جب انہوں نے اقتدار ریت کی طرح اپنے ہاتھوں سے نکلتا دیکھا تھا۔

یہ پی ٹی آئی کی بدقسمتی ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔

کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف ملک کا سیاسی ٹائی ٹینک تھی مگر بدقسمتی یہ کہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا کپتان نے ہی اس ٹائی ٹینک کو ملک میں غرقاب کردیا۔

جو زندہ بچے وہ پتوار یا تختہ تھام کر ڈوبتے ابھرتے ساحل تک پہنچ گئے دیگر راستے میں ہیں۔ سوائے چند ایک کے جو اب بھی قاسم کے ابا کا دم بھرتے ہیں، باقی ایسے ہیں جن کے ذہن میں کپتان کا نام بھی گونجے تو ان کی ’کانپیں ٹانگ جاتی‘ ہیں۔ نوبت یہ ہے کہ سیاسی ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے جانے کیلئے کوئی چھوٹا ٹائٹن بھی زمان پارک جانے کو تیار نہیں۔

تحریک انصاف ملک کا سیاسی ٹائی ٹینک تھی مگر بدقسمتی یہ کہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا کپتان نے ہی اس ٹائی ٹینک کو ملک میں غرقاب کردیا— فوٹو: فائل
تحریک انصاف ملک کا سیاسی ٹائی ٹینک تھی مگر بدقسمتی یہ کہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا کپتان نے ہی اس ٹائی ٹینک کو ملک میں غرقاب کردیا— فوٹو: فائل

سوال یہ ہے کہ پھر سیاسی ٹائی ٹینک کے کپتان کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ آئی ایم ایف کے اعلیٰ وفد نے زمان پارک جا کر پی ٹی آئی کی قیادت سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ قرض پروگرام ڈیزائن ہی ایسے کیا گیا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں۔ یعنی چیئرمین پی ٹی آئی کا وہ دیرینہ مطالبہ پورا ہوا جو تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد سے کیا جاتا رہا ہے۔

شاید اس کی ایک وجہ مغربی ممالک میں موجود تحریک انصاف کے سرگرم افراد بھی ہیں جو پاکستان کے خلاف مسلسل لابنگ میں جُٹے ہوئے ہیں۔

امریکا اور برطانیہ میں اس تحریک کے افراد نسبتاً زیادہ فعال ہیں۔ امریکا میں تو درجنوں اراکین کانگریس سے رابطے کر کے ان سے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن تک کو خط لکھوایا جا چکا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا نوٹس لیا جائے۔

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر1967 سے قائم پیپلزپارٹی ہو یا 4 عشروں سے قائم مسلم لیگ نواز، ان دونوں پرانی جماعتوں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے افراد امریکا، برطانیہ اور یورپ میں نسبتاً زیادہ فعال کیسے ہوئے؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر1967 سے قائم پیپلزپارٹی ہو یا 4 عشروں سے قائم مسلم لیگ نواز، ان دونوں پرانی جماعتوں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے افراد امریکا، برطانیہ اور یورپ میں نسبتاً زیادہ فعال کیسے ہوئے؟— فوٹو: فائل
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر1967 سے قائم پیپلزپارٹی ہو یا 4 عشروں سے قائم مسلم لیگ نواز، ان دونوں پرانی جماعتوں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے افراد امریکا، برطانیہ اور یورپ میں نسبتاً زیادہ فعال کیسے ہوئے؟— فوٹو: فائل

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں ہی اقتدار کی ہیٹ ٹرک مکمل کرچکیں، دونوں ہی سے لوگوں کا کسی حد تک خائف ہونا بھی سمجھ میں آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن کے موقع پر سہانے سپنے دکھانے کی روایت ہے۔ آسمان سے تارے توڑ کر لانا تو کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت آئے 6 ماہ نہیں گزرتے کہ لوگ اس کے جانے کیلئے جھولی پھیلا پھیلا کر بدعائیں شروع کر دیتے ہیں۔

یہی کچھ تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہوا تھا، قاسم کے ابا نے پہلے اپنی ناتجربہ کاری کا اعتراف کیا تھا اور پھر تسلیم کیا تھا کہ تباہ معیشت راتوں رات نہیں بدلی جاسکتی۔

اس سب کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں میں پی ٹی آئی کی جڑیں کیوں گہری رہیں؟ شاید اسکا جواب تلاش کرنا بہت مشکل بھی نہیں۔

سانحہ 9 مئی کے بعد بیلجیم اور فرانس سمیت یورپ، برطانیہ اور امریکا میں پاکستان اور اس کے اہم ترین اداروں کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں۔ آخر ان لوگوں کو بھی تو احساس ہوا یا کسی سمجھدار نے احساس دلایا کہ وطن پر کتنی گہری ضرب لگائی گئی ہے اور اس سے ان ملکوں کی حکومتوں اور وہاں بسے لوگوں کو پیغام دیا جانا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ 9 مئی کو کیا کیا گیا ہے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی سمجھدار نے اپنے تئیں اوورسیز پاکستانیوں میں پی ٹی آئی کی محبت جگانے کا عشروں پہلے خاموشی سے بیڑا اٹھایا ہو اور پھر رفتہ رفتہ مختلف طریقوں سے اس کی ڈوز بڑھائی جاتی رہی ہو؟ اور یہ ڈوز آج حکومت کے گلے پڑگئی ہو۔

سانحہ 9 مئی میں مرکزی کردار چیئرمین پی ٹی آئی کا تھا کیونکہ وہ عوام کو فوج کے خلاف اُس وقت سے اُکسا رہے تھے جب انہوں نے اقتدار ریت کی طرح اپنے ہاتھوں سے نکلتا دیکھا تھا— فوٹو: فائل
سانحہ 9 مئی میں مرکزی کردار چیئرمین پی ٹی آئی کا تھا کیونکہ وہ عوام کو فوج کے خلاف اُس وقت سے اُکسا رہے تھے جب انہوں نے اقتدار ریت کی طرح اپنے ہاتھوں سے نکلتا دیکھا تھا— فوٹو: فائل

پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کے خلاف مقدمات اس عدالت میں چلائے جائیں یا اُس عدالت میں، یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر جس ملک کی تباہ معیشت کا انکوبیٹر عالمی قرضے اور امداد ہوں، وہاں فیصلے لیتے ہوئے کئی تلخ گھونٹ پینا پڑتے ہیں۔

غیرت بریگیڈ کچھ بھی کہے، حکومت کو زمینی حقائق پر نظر رکھنی چاہیے۔ پہلے قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں اور ان عناصر کو سزا دیں جنہوں نے آستینوں میں سانپ پالے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔