Time 30 جولائی ، 2023
پاکستان

سینیٹ میں انتہا پسندی کی روک تھام کے بل کی شدید مخالفت، چیئرمین نے بل ڈراپ کر دیا

حکومت کسی شخص یا تنظیم کو پرتشدد انتہاپسندی پر لسٹ 1 اور 2 میں شامل کر سکتی ہے__فوٹو: فائل
حکومت کسی شخص یا تنظیم کو پرتشدد انتہاپسندی پر لسٹ 1 اور 2 میں شامل کر سکتی ہے__فوٹو: فائل

اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل ممبران کی شدید مخالفت کے بعد ڈراپ کر دیا۔

وزیرمملکت شہادت ایوان نے ایوان میں پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کا بل 2023 پیش کیا جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے مجوزہ بل پر ایوان سے رائے مانگی۔

سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام بل 2023 اہمیت کا حامل ہے، اس بل کو پاس کرنے سے پہلے کمیٹی میں پیش کرنا چاہیے تھا،کل کو کوئی بھی اس بل کا شکار ہوسکتا ہے،ابھی جلد بازی میں بل پاس ہورہا ہے،کل کہا جائے گا بل پاس ہورہا تھا تو آپ کہاں تھے۔

سینیٹر عبدالغفور حیدری بولے کہ اس بل سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوں گے، حکومت قانون سازی کر لیتی ہے بعد میں پھندا اپنے ہی گلے میں آتا ہے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا ایسی قانون سازی نہ کی جائے جو آئین و قانون کے خلاف ہو، اس کے علاوہ سینیٹر طاہر بزنجو بولے کہ اگر بل منظور کیا گیا تو ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ کروں گا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ بل پی ٹی آئی نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف ہے، یہ بل جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا،اس بل کی مخالفت کرتا ہوں۔ 

سینیٹر طاہر بزنجو   نے کہا کہ  یہ بل جمہوریت پر کھلا حملہ ہے، ہم اس بل کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، اگر بل منظور کیا گیا تو ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ کروں گا،  پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں، ن لیگ سے سخت گلہ ہے،  کسی جماعت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا بیان

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس حوالے سے کہا کہ آج اجلاس بل کے لیے نہیں بلکہ ایوان کے دن پورے کرنے کے لیے بلایا تھا، حکومت اس بل کو ڈراپ کرے نہ کرے، میں ڈراپ کرتا ہوں۔

وفاقی وزیرشیری رحمان نے کہا کہ بل عجلت میں پاس کرنے میں کوئی ممانعت نہیں، ہم اس بل میں اپنی ترامیم لائیں گے۔

بل کا متن کیا تھا؟

بل کے متن کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد،مذہبی و سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال اور تشدد ہے، اس کے علاوہ اس میں فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا یا اکسانا، فرقہ واریت کی ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہو، پرتشدد انتہا پسندی میں شامل کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا یا  تشدد اور دشمنی کے لیے اکسانا بھی شامل ہے۔

مجوزہ بل کے مطابق شیڈول میں شامل شخص کو تحفظ اور  پناہ دینا پرتشدد انتہاپسندی ہے، پرتشد انتہاپسندی کی تعریف کرنا اور  اس کے لیے معلومات پھیلانا بھی پرتشدد انتہاپسندی میں شامل ہے۔

 حکومت کسی شخص یا تنظیم کو  پرتشدد انتہاپسندی پر لسٹ 1 اور  2 میں شامل کر سکتی ہے۔

لسٹ 1:

لسٹ ون میں وہ تنظیم ہوگی جوپرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہو، جس کا سربراہ پرتشدد ہو، اس لسٹ میں نام بدل کر دوبارہ منظرعام پر آنے والی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی۔

لسٹ 2:

بل کے مطابق لسٹ ٹو میں ایسے افراد شامل ہیں جو  پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہوں، لسٹ 2 میں پرتشدد ادارے، لیڈر یا پرتشدد ادارے کی مالی معاونت کرنے والے بھی شامل ہوں گے، حکومت پرتشدد فرد اور پرتشدد تنظیم کی میڈیا تک رسائی یا اشاعت پر پابندی لگائے گی۔

بل میں کہا گیا کہ پرتشد فرد یا تنظیم کے لیڈریا فرد کی پاکستان میں نقل وحرکت یا باہر جانے پرپابندی ہوگی، اس کے علاوہ حکومت پرتشدد تنظیم کے اثاثے کی چھان بین کرے گی۔

بل میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ حکومت پرتشد تنظیم کے لیڈر، عہدیداروں اور ممبران کی سرگرمیاں مانیٹرکرے گی، پرتشدد تنظیم کے لیڈر،عہدیداروں، ممبران کا پاسپورٹ ضبط ہوگا اور بیرون ملک سفرکی اجازت نہ ہوگی۔

بل کے متن کے مطابق پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیداران اور ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کردیا جائے گا، اثاثے،پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے، اس کے علاوہ پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی اور کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر،ممبر یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لسٹ میں شامل شخص کو 90 دن سے 12 ماہ تک حراست میں رکھا جاسکے گا۔

کوئی سرکاری ملازم نہ خود نہ اہلخانہ کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے دیگا: بل

بل کے متن کے مطابق تعلیمی ادارے کسی شخص کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے  یا اس کا پرچار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس کے علاوہ کوئی سرکاری ملازم نہ خود نہ اہلخانہ کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے دے گا۔ 

پرتشدد انتہا پسندی کے مواد کو سوشل میڈیا سے فوری اتار دیا جائے گا یا بلاک کر دیا جائے گا ، قابل سزا جرم سیشن کورٹ کے ذریعے قابل سماعت ہو گا، جرم ناقابل ضمانت ، قابل ادراک cognizable اور non compoundable ہو گا۔ 

بل میں کہا گیا کہ معاملہ کی پولیس یا کوئی اور ادارہ تحقیقات اور انکوائری کرے گا۔

 پرتشدد انتہا پسندی کے مرتکب شخص کو کتنی سزا اور جرمانہ ہوگا؟

 پرتشدد انتہا پسندی کے مرتکب شخص کو تین سے دس سال تک سزا اور بیس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا،  اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو ایک سے پانچ سال تک قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔ 

پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو پچاس لاکھ روپے جرمانہ ہو گا، تنظیم تحلیل کر دی جائے گی، قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو بیس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔ جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے۔ 

معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی دس سال تک قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ 

جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا، حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ حکومت لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے لیڈر اور ممبران کو گرفتار کرکے نوے روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے، مدت میں بارہ ماہ تک توسیع ہو سکتی ہے، متاثرہ شخص کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہو گا۔

مزید خبریں :