دنیا کا عجیب ترین قصبہ جہاں بیشتر گھر 2 ممالک میں واقع ہیں

یہاں آپ ایک ملک سے کھانا خرید کر دوسرے ملک میں بیٹھ کر کھا سکتے ہیں / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
یہاں آپ ایک ملک سے کھانا خرید کر دوسرے ملک میں بیٹھ کر کھا سکتے ہیں / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

دنیا کا عجیب ترین قصبہ جہاں جانے والے سیاحوں کو اکثر سمجھ نہیں آتا کہ وہ کس ملک کی سرزمین پر موجود ہیں۔

جی ہاں واقعی اس قصبے کے رہائشی جب بھی کسی کام کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو متعدد بار ایک سے دوسرے ملک کی سرحد کو عبور کرتے ہیں۔

یہ ہے Baarle-Hertog جو نیدرلینڈز کی سرحد میں موجود بیلجیئم کا ایک قصبہ ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بیلجیئم کے علاقے میں ایک ڈچ قصبہ بھی ہے۔

اس چھوٹے سے قصبے میں سیر کرنا تو دنیا کے دیگر مقامات کی طرح کا ہی تجربہ ہوتا ہے، مگر جب آپ زمین کو دیکھتے ہیں تو پھر ذہن گھوم کر رہ جاتا ہے کیونکہ جگہ جگہ نیدرلینڈز اور بیلجیئم کی سرحدی لکیریں نظر آتی ہیں۔

درحقیقت ایسی 24 جگہیں ہیں جو دونوں ممالک کی سرحد کی حیثیت رکھتی ہیں۔

یہاں آپ کچھ دور چہل قدمی کے دوران کئی بار سرحد عبور کرتے ہیں / فوٹو بشکریہ atlasobscura
یہاں آپ کچھ دور چہل قدمی کے دوران کئی بار سرحد عبور کرتے ہیں / فوٹو بشکریہ atlasobscura

کئی مقامات پر تو سرحدی لکیر گھروں کے درمیان سے بھی گزرتی ہے، یعنی وہاں رہنے والے کھانا ایک ملک کے اندر بناتے ہیں اور اسے دوسرے ملک کے اندر کھاتے ہیں۔

اس قصبے میں ایک فرنٹ ڈور پالیسی کو اپنایا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ملک وہ ہوگا جس جانب گھر کا باہری دروازہ کھلتا ہوگا۔

مگر کچھ جگہوں پر تو دروازوں کے درمیان بھی سرحدی لکیر موجود ہے تو وہاں اس پالیسی کا اطلاق کیسے ہوتا ہے، یہ سوال ذہن کو الجھا دیتا ہے۔

متعدد گھر دونوں ممالک کے اندر واقع ہیں / فوٹو بشکریہ discovering belgium
متعدد گھر دونوں ممالک کے اندر واقع ہیں / فوٹو بشکریہ discovering belgium

ایک ہی قصبے میں 2 حکومتیں، 2 کونسلز، 2 میئرز اور 2 اسکولز موجود ہیں۔

یہاں 2 زبانیں بولی جاتی ہیں ایک بیلجیئم کی Flemish اور دوسری نیدرلینڈز کی ڈچ، یہی وجہ ہے کہ وہاں رہنے والے بیشتر افراد دونوں میں مہارت رکھتے ہیں۔

اس قصبے کے رہائشیوں کو کورونا وائرس کی وبا کے دوران عجیب مشکل کا سامنا ہوا تھا کیونکہ بیلجیئم اور نیدرلینڈز کی سماجی دوری کے قوانین ایک دوسرے سے مختلف تھے۔

2020 میں بیلجیئم کی حکوم نے تمام افراد کے لیے عوامی مقامات جیسے دکانوں میں فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا جبکہ نیدرلینڈز کی جانب سے محض پبلک ٹرانسپورٹ میں فیس ماسک پہننے کی ہدایت کی گئی۔

یہاں 2 حکومتیں کام کرتی ہیں / فوٹو بشکریہ ڈیلی Mirror
یہاں 2 حکومتیں کام کرتی ہیں / فوٹو بشکریہ ڈیلی Mirror

چونکہ اس قصبے میں متعدد دکانیں دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے، تو وہاں جانے والے افراد کے لیے کووڈ پالیسیوں پر عملدرآمد ایک معمہ بن کر رہ گیا۔

البتہ سرحدی لکیروں پر موجود ہوٹلوں نے اپنی میزوں کو بیلجیئم کے علاقے سے نکال کر ڈچ علاقے میں رکھ دیا۔

دونوں ممالک میں واقع ایک آرٹ گیلری کی مالک Sylvia Reijbroek نے اس موقع پر بتایا تھا کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ میری دکان میں آنے کے بعد انہیں فیس ماسک پہننا ہے یا نہیں۔

Sylvia Reijbroek کی دکان / فوٹو بشکریہ ڈیلی Mirror
Sylvia Reijbroek کی دکان / فوٹو بشکریہ ڈیلی Mirror

ان کا کہنا تھا کہ ہماری 2 حکومتیں ہیں اور کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ان کی سوچ بھی مختلف ہے جو ہمارے لیے اچھا تجربہ نہیں۔

کورونا سے ہٹ کر بھی یہاں دونوں ممالک کے کئی قوانین ایک دوسرے کے متضاد ہیں، جیسے نیدرلینڈز کی جانب سے آتشبازی کی فروخت پر پابندی ہے مگر بیلجیئم کی جانب سے اس کی اجازت ہے۔

تو قصبہ اس طرح تقسیم کیوں ہے؟

قصبے کی تاریخ بھی کافی دلچسپ ہے / فوٹو بشکریہ Delusional Bubble
قصبے کی تاریخ بھی کافی دلچسپ ہے / فوٹو بشکریہ Delusional Bubble

اس قصبے کی تاریخ 1198 سے شروع ہوئی جب اس سرزمین کو ہنری اول نے فتح کیا اور اس کے کچھ حصے اپنے دوست کے حوالے کردیے۔

اس کے 632 سال بعد بیلجیئم نے نیدرلینڈز سے آزادی حاصل کی جس کے نتیجے میں یہ بحث دہائیوں تک چلی کہ اس قصبے میں سرحد کہاں سے شروع ہوگی۔

1995 میں اس کا فیصلہ ہوا، یعنی اس قصبے کو ابھی 30 سال سے کم وقت گزرا ہے۔

مزید خبریں :