بلاگ
Time 01 ستمبر ، 2023

جی20: دنیا کی نئی اقتصادی ترتیب

بھارت میں اس ماہ ہونے والے جی ٹوئنٹی اجلاس نے غیر معمولی اہمیت اختیار کرلی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ سربراہ اجلاس ایسے موقع پر ہورہا ہے کہ جب امریکا اور اس کے اتحادی ممالک یوکرین جنگ کے معاملے پر روس کا گھیرا تنگ کررہے ہیں اور خطے میں چین کے بڑھتے اقتصادی اثر کو کم کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔

ہفتہ اور اتوار کو ہونے والے اس دو روزہ اجلاس میں شاید اسی لیے روس کے صدر پیوٹن نے شرکت سے انکار کردیا ہے اور ماسکو کی نمائندگی روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف کریں گے، ساتھ ہی چین کے صدر شی کی شرکت بھی مشکوک ہوگئی ہے۔ اس طرح جی ٹوئنٹی اجلاس میں اب سوائے چند ممالک کے زیادہ تر وہی اراکین ہیں جو امریکا کے بہت زیادہ قریب ہیں۔

اسی سلسلے میں امریکی محکمہ خارجہ کی اردو ترجمان مارگریٹ مکلوڈ نے خصوصی انٹرویو دیا جو عہدہ سنبھالنے کے بعد انکا پہلا انٹرویو تھا جس میں ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آیا یہ جی 20 نئی دہلی سربراہ اجلاس کہیں عالمی سطح پر نئی اقتصادی ترتیب کی کوشش تونہیں؟

مارگریٹ مکلوڈ کا کہنا تھا کہ امریکا اس لیے جی20 اجلاس میں شرکت کررہا ہے کیونکہ آج کل دنیا میں کئی مسئلے ہیں، یہ مسائل ایک ملک حل نہیں کرسکتا، اسی لیے جی 20 اچھا فورم ہے جس میں ان مسائل پر بات چیت ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین پر روس کا قبضہ کرنے کی کوشش سے پوری دنیا پر اثرات پڑرہےہیں، اناج منڈی کا بحران اس کی زندہ مثال ہے، ساتھ ہی یہ اجلاس موقع فراہم کرے گاکہ رکن ممالک کس طرح بیرونی مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر دنیا کی غربت کم کرسکتے ہیں۔

جی ٹوئنٹی اجلاس ایسے موقع پر بھی ہورہا ہے جب خطے میں ایک نئی پیشرفت برکس کی توسیع کی صورت میں سامنے آئی ہے، اب نہ صرف امریکا کا مخالف اور تیل پیدا کرنیوالے دنیا کے بڑے ملکوں میں سے ایک ایران بلکہ اتحادی سعودی عرب اور امارات بھی یکم جنوری سے روس اور چین کے زیراثر بریکس میں شامل ہورہے ہیں۔

یہی نہیں،عرب ممالک پہلےہی ایران سے تعلقات بہترکرچکے ہیں جو امریکا کی انڈوپیسیفک اسٹریٹیجی کیلیے بھی دھچکا تصور کیا جارہاہے، میں نے مارگریٹ مکلوڈ سے یہ بھی پوچھا کہ اب برکس کادائرہ وسیع ہونا خطے میں امریکا کے اسٹریٹیجک اوراقتصادی مفادات پرکتنی بڑی ضرب ہے؟

مارگریٹ مکلوڈ نے براہ راست جواب تو نہیں دیا تاہم اتنا ضرور کہا کہ بریکس جیسے سفارتی پلیٹ فارم پر اگر رکن ممالک اپنے اختلافات پر بات کرتے ہیں تویہ اچھی چیز ہے،  امریکا تیل کی بڑھتی قیمتوں اور اس کے استعمال سے پیدا اثرات سے فکرمند ہے اورچاہتا ہے کہ دنیا حیاتیاتی ایندھن سے صاف توانائی کی طرف منتقل ہو، ماحولیاتی تبدیلیوں اور تیل کی سیاست کے اثرات اپنی جگہ، جنوبی ایشیا کا ایک اور اہم مسئلہ افغانستان ہےجہاں طالبان کی حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا گیا۔

چین کو اقتصادی طورپر کنٹرول کرنے اور یوکرین جنگ میں روس سے نمٹنےکی کوششوں میں مصروف امریکا سمیت مغربی ممالک نے افغانستان کوبالکل پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس صورتحال میں امریکا کے لیے بھارت کی اہمیت مزید بڑھی ہے جب کہ پاکستان ایک بار پھر اثرات بھگتنے کے لیے تنہاچھوڑدیا گیا ہے، بنوں میں ہوئی حالیہ دہشتگردی اسکی تازہ مثال ہے۔

میں نے مارگریٹ مکلوڈ سے پوچھا کہ آیا امریکا کو اندازہ ہےکہ افغانستان سے منہ موڑنے کے پاکستان پرسیاسی اورسماجی اثرات کیا ہورہے ہیں؟

مارگریٹ مکلوڈ کا کہنا تھا کہ امریکا کے لیے پاکستان کی اپنی حیثیت ہے، واشنگٹن کسی بھی صورت پاکستان کو کسی دوسرے ملک کی عینک سے نہیں دیکھتا، پاکستان کےساتھ بڑے پیمانے پر تعاون کے مواقع موجود ہیں، پانی ہو یا زراعت، مختلف شعبوں میں تعاون جاری ہے اور امریکا مستقبل میں بھی تعاون کیلیے تیار ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ سچ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں امریکا، بھارت کے قریب ہوا ہے تاہم واضح کرنے کی کوشش کی کہ اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ ' بھارت سے جتنے قریب ہوئے، پاکستان سے اتنا ہی دور ہوگئے ہوں'۔

پچھلے کچھ عرصے میں امریکا کی جانب سے پاکستان میں الیکشن پر زور بھی سامنے آیا ہے۔

حال ہی میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے ملاقات کی اور محکمہ خارجہ کی سینئر اہلکار وکٹوریا نولینڈ نے نگراں وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی سے ٹیلی فون پر بات کی اسکا مرکزی محور پاکستان میں الیکشن ہی تھا۔

مارگریٹ مکلوڈ سے میں نے پوچھا کہ ان باتوں اور امریکی سفیر کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور گروہوں سے ملاقاتوں کے نتیجے میں امریکا کو کس قدر یقین ہےکہ الیکشن 90 روز میں ہوں گے اور اگر یہ وقت پرنہیں ہوتے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ جہاں تک الیکشن کا تعلق ہے وہ تو ہر جمہوریت ہی میں ہوتے ہیں، اور امریکا ہر اس سربراہ کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے جسے پاکستانی شہری اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے۔

مارگریٹ مکلوڈ کی بات اپنی جگہ، یہ تاحال غیر واضح ہے کہ پاکستان میں الیکشن 90 روز میں کرائے جائیں گے، اتنا یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن وقت پر نہ ہوئے تو پاکستان کوآئی ایم ایف کی قسطیں جاری ہونا ماضی سے کئی گنا زیادہ دشوار ہوجائےگا، قسطیں مل بھی گئیں تو شرائط ایسی ہوں گی جن کا امیر طبقے پر اثرپڑے نہ پڑے،غریب طبقہ ضرورکچلا جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔