Time 27 ستمبر ، 2023
پاکستان

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے پر ازخود نوٹس کیوں لیا؟

چار سال کے عرصے میں تین چیف جسٹسز صاحبان میں سے کسی نے فیض آباد دھرنا کیس کی نظر ثانی درخواستیں مقرر نہیں کیں— فوٹو: فائل
چار سال کے عرصے میں تین چیف جسٹسز صاحبان میں سے کسی نے فیض آباد دھرنا کیس کی نظر ثانی درخواستیں مقرر نہیں کیں— فوٹو: فائل

کیا آپ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے پر ازخود نوٹس کیوں لیا؟ ازخود نوٹس کا فیصلہ کب آیا اور نظر ثانی درخواستیں کب دائر ہوئیں، یا پھر یہ کہ یہ کیس کتنے عرصے بعد پہلی سماعت کیلئے مقرر ہو رہا ہے؟

21 نومبر2017 کو سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ معمول کے مقدمات کی سماعت کر رہا تھا کہ وکلا کی عدم پیشی کی شکات ہونے لگی، اسی دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایک وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فیض آباد کے مقام پر دھرنے کی وجہ سے عدالت پہنچنے میں وکلا اور سائلین کو دشواری کا سامنا ہے، اس پر عدالت نے فیض آباد دھرنے پر ازخود نوٹس لے لیا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وزارت داخلہ اور دفاع کے جوابات جمع کرائے جائیں، ایک سال بعد یعنی نومبر 2018 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا اور 6 فروری 2019 کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا۔

فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلا سنائے جانے کے بعد نظر ثانی درخواستیں 15 اپریل کو دائر ہوئیں، نظر ثانی درخواستیں دائر کرنے کیلئے رجسٹرار آفس نے معینہ مدت سے اضافی 15 دن کا وقت بھی دیا۔

سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر 8 نظر ثانی درخواستیں دائر کی گئیں، اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے دائر وفاقی حکومت کی نظر ثانی درخواست میں کہا کہ فیصلے سے عوام کو یہی تاثر جا رہا ہے کہ شاید انتہا پسندی پھیلانے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی افواج کے خلاف آبزرویشنز مبہم اور شنوائی کے بغیر دی گئیں، فیصلے سے افواج اور ایجنسیز کا مورال ڈاؤن ہوا۔

درخواست میں کہا گیا کہ جن افسران کو ٹی ایل پی کے مظاہرین میں لفافے بانٹتے دیکھا گیا وہ ان کو واپسی کا کرایہ دے رہے تھے، اس لیے عدالت فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں افواج اور ایجنسیز کے خلاف آبزرویشنز واپس لے، فیصلے میں فوجی افسران کے خلاف کارروائی کے احکامات بھی کالعدم قرار دیے جائیں۔

وفاقی حکومت کے علاوہ انٹیلی جنس بیورو، پیمرا، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، شیخ رشید، اعجازالحق اور الیکشن کمیشن نے بھی فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف الگ الگ نظر ثانی درخواستیں دائر کروائی تھیں۔

نظر ثانی درخواستیں دائر کرنے کے اگلے ہی ماہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کر دیا گیا، یہ وہ دور تھا جب آصف سعید کھوسہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔

اس کے بعد جسٹس گلزار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور پھر چیف جسٹس عمر عطا بندیال لیکن چار سال کے عرصے میں تینوں چیف جسٹسز صاحبان میں سے کسی نے نظر ثانی درخواستیں مقرر نہیں کیں۔

مرکزی کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے چیف جسٹس بننے کے بعد دوسرے ہی ہفتے درخواستوں کو مقرر کیا ہے جن پر سماعت 28 ستمبر کو ہو گی۔

مزید خبریں :