Time 29 ستمبر ، 2023
پاکستان

’قانون معطل کرنا غیر آئینی تھا‘، حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عدالت میں جواب جمع کرا دیا

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

وفاقی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس میں فل کورٹ کے سوالات کے جوابات جمع کرا دیے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے جوابات میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے قانون معطل کرکے بینچز بنا کر فیصلے دیے، آٹھ رکنی بینچ کی جانب سے قانون معطل کرنا غیر آئینی تھا۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس میں اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروائے گئے وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ عام قانون سازی سے آرٹیکل 184 تین میں اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے، آرٹیکل 184 تین میں متاثرہ فریق کے پاس نظرثانی کے سوا اپیل کا حق نہیں، توہین عدالت کا آرٹیکل 204 اپیل کا حق فراہم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کر کے توہین عدالت کیسز میں اپیل کا حق فراہم کیا۔

وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، قانون سے عدالتی معاملات میں شفافیت اور بینچز کی تشکیل میں بہتری آئے گی، چیف جسٹس کے لامتناہی صوابدیدی اختیار سے نظام تباہ ہوتاہے، چیف جسٹس ’ماسٹر آف روسٹر‘ ہوگا یہ کوئی طے شدہ قانون نہیں، ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح انڈین عدلیہ سے لی گئی ہے۔

وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت لارجر بینچ آرٹیکل 184 تین کے مقدمات سنے گا، مفروضے کی بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، مستقبل کے کسی قانون سے عدلیہ کے قانون پر قدغن آئے تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے، قانون اس بنیاد پر کالعدم نہیں ہوسکتا کہ فل کورٹ کے فیصلے پر اپیل کا حق نہیں ملے گا، فل کورٹ غیرمعمولی مقدمات میں تشکیل دیا جاتا ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ قانون سازی سےعدالتی فیصلوں کا اثر ختم کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی جواب جمع کروا دیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن نےسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا ایکٹ بننے سے پہلے اس پر عمل درآمد روکنا اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے۔

ن لیگ نے  اپنے جواب میں مؤقف اختیار کیا کہ عدالت ایکٹ بننے سے پہلے اس پر عمل درآمد نہیں روک سکتی، جب تک ایکٹ کالعدم نہیں ہوتا اس پرعمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

ن لیگ نے مؤقف اختیار کیا کہ قانون پرعمل درآمد روک کر منتخب نمائندوں کی نیت پر سوالات اٹھانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے رواں برس 13 اپریل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ معطل کر دیا تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے رواں سال 10 اپریل کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل  پیش کیاجسے متفقہ رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔

12 اپریل کو منظورہ شدہ بل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا، ایکٹ کے خلاف دو وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے کل چار درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور عدالت نے اگلے روز  یعنی 13 اپریل کو درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کر دیا تھا۔

13 اپریل کو سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023  پر تاحکم ثانی عمل درآمد روک دیا تھا۔

مزید خبریں :