فضائی سفر کے بغیر دنیا کے ہر ملک کو گھومنے والے شخص نے کتنا خرچہ کیا؟

تھورب جورن پیڈرسن کی ایتھوپیا کی تصویر / فوٹو بشکریہ تھورب جورن پیڈرسن انسٹاگرام اکاؤنٹ
تھورب جورن پیڈرسن کی ایتھوپیا کی تصویر / فوٹو بشکریہ تھورب جورن پیڈرسن انسٹاگرام اکاؤنٹ

ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے تھورب جورن پیڈرسن دنیا کے وہ پہلے شخص ہیں جو طیارے میں سفر کیے بغیر دنیا کے ہر ملک گھوم چکے ہیں۔

44 سالہ تھورب جورن پیڈرسن کو ایسا کرنے میں 10 سال کا عرصہ لگا، مگر فضائی سفر کے بغیر دنیا گھومنے میں ان کا کتنا خرچہ ہوا؟

اس سوال کا جواب انہوں نے خود ایک انٹرویو میں دیا۔

انہوں نے مجموعی رقم بتانے سے تو گریز کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ اوسطاً روزانہ 20 ڈالرز خرچ ہوئے۔

یعنی 10 سال کی اوسط کو مدنظر رکھا جائے تو دنیا کے اس سفر میں ان کے 70 سے 75 ہزار ڈالرز خرچ ہوئے ہوں گے۔

خیال رہے کہ ان کا سفر 2013 میں شروع ہوا اور مئی 2023 میں مکمل ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ 'کچھ ممالک جیسے سنگاپور میں مجھے روزانہ 20 ڈالرز سے زیادہ خرچ کرنا پڑے، مگر کچھ ممالک جیسے بولیویا میں 20 ڈالرز ضرورت سے زیادہ تھے'۔

انہوں نے بتایا کہ جب وہ ٹرین اور بحری جہاز میں نہیں ہوتے تھے تو زیادہ تر مختلف گھرانوں کے مہمان بن کر ان کے ساتھ رہتے تھے۔

ان کا سفر 2013 میں شروع ہوا تھا / فوٹو بشکریہ Selena Wright
ان کا سفر 2013 میں شروع ہوا تھا / فوٹو بشکریہ Selena Wright

انہوں نے مزید بتایا کہ 10 سال کے دوران لاتعداد افراد نے اپنے گھروں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'درحقیقت اکثر مجھے لوگوں کو انکار کرنا پڑتا تھا کیونکہ مجھے بہت زیادہ افراد کی جانب سے پیشکش کی جاتی تھی یا ان کے ساتھ رہنا میرے لیے مشکل ہوتا تھا'۔

تھورب جورن پیڈرسن کے مطابق متعدد بار انہیں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام کی پیشکش بھی ہوئی۔

ایک دہائی طویل ایڈونچر کے دوران انہیں ایک کمپنی روس انرجی کی جانب سے ہر ماہ 600 ڈالرز بھی دیے گئے۔

یہ سفر کورونا وائرس کی وبا کے باعث التوا کا شکار ہوا / فوٹو بشکریہ Mike Douglas
یہ سفر کورونا وائرس کی وبا کے باعث التوا کا شکار ہوا / فوٹو بشکریہ Mike Douglas

انہوں نے بتایا کہ 'انہوں نے میرے درد کو محسوس کیا اور وہ میری مدد کرنا چاہتے تھے، میں نے یہ سفر دنیا کی تاریخ کا حصہ بننے کے لیے کیا اور وہ بھی اس کا حصہ بننا چاہتے تھے'۔

دنیا کے 203 خطوں کے سفر کے دوران انہوں نے 3 لاکھ 82 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور اس دوران 20 مختلف اقسام کی ٹرانسپورٹ استعمال کی۔

ان کے اپنے الفاظ میں انہوں نے اس سفر کے دوران 351 بسوں، 67 منی بسوں، 219 ٹیکسیوں، 45 موٹر سائیکل ٹیکسیوں، 84 شیئر ٹیکسیوں، 4 شیئر موٹر سائیکل ٹیکسیوں، 28 فور وہیل ڈرائیو گاڑیوں، 9 ٹرک، 158 ٹرینوں، 19 ٹرامز، 43 رکشوں، 43 کنٹینر بحری جہاز، 33 بوٹس، 32 فیریز، 3 سیل بوٹس، 2 کروز شپ، ایک گھوڑا گاڑی، ایک پولیس کی گاڑی اور ایک ہائی پرفارمنس یاٹ میں سفر کیا۔

انہوں نے اس سفر کے دوران سب سے زیادہ وقت ہانگ کانگ میں گزارا، جہاں وہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث 772 دن تک مقیم رہے جبکہ سب سے کم وقت ویٹیکن سٹی میں گزارا جو 24 گھنٹے تھا۔

موت کے منہ میں پہنچنے کا تجربہ

ان کا سفر 2023 میں مکمل ہوا / سوشل میڈیا فوٹو
ان کا سفر 2023 میں مکمل ہوا / سوشل میڈیا فوٹو

انہوں نے بتایا کہ اس سفر کے دوران پیش آنے والے چند خوفناک واقعات میں سے ایک کیمرون اور کانگو کی سرحد پر پیش آیا۔

ان کے مطابق ٹوٹے پھوٹے راستے پر کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد سرحد کے قریب 3 فوجی وردی میں ملبوس افراد نے ان کی ٹیکسی کو روک لیا جو نشے میں دھت نظر آتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'گاڑی سے باہر نکلنے پر جب ایک وردی میں ملبوس شخص نے مجھے دیکھا تو میں نے اس کی آنکھوں میں آگ بھڑکتی دیکھی، اس کی آنکھوں میں بہت زیادہ غصہ نظر آیا، وہ مجھے مغربی سامراجی نظام کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تینوں افراد کی انگلیاں ٹریگر پر تھیں، مجھے لگ رہا تھا کہ اب میں مرنے والا ہوں اور میرے سفر کا اختتام ہوگیا ہے'۔

مگر 45 منٹ بعد فوجیوں نے اچانک انہیں جانے دیا۔

تھورب جورن پیڈرسن نے کہا کہ 'ہم واپس ٹیکسی میں پہنچے اور وہاں سے 3 کلومیٹر دور چلے گئے، جہاں میں نے ڈرائیو کو رکنے کا کہا اور باہر نکل کر سڑک پر بیٹھ گیا، جہاں میں 10 منٹ تک کانپتا رہا'۔

دیگر افراد کو کیا مشورہ دیا؟

تھورب جورن پیڈرسن / سوشل میڈیا فوٹو
تھورب جورن پیڈرسن / سوشل میڈیا فوٹو

جو کوئی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے، اس کے بارے میں تھورب جورن پیڈرسن کا مشورہ ہے کہ ایسا مت کریں۔

انہوں نے کہا کہ 'اس سفر نے میری زندگی کا بہت بڑا حصہ چھین لیا اور اس کا خرچہ، بہت، بہت زیادہ تھا، میں نے اسے مکمل کرنے کے لیے بہت زیادہ وسائل خرچ کیے، یہ بہت، بہت زیادہ مشکل تھا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'کچھ اور ایسا کریں جو زیادہ قابل فہم اور پرلطف ہو'۔