Time 01 نومبر ، 2023
کھیل

بنگلادیش کیخلاف جیسے کھیلے، پاکستان سے ایسے ہی کھیل کی امید تھی: سابق بھارتی کرکٹر

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

سابق بھارتی کرکٹر اور کرکٹ کمینٹیٹر دیپ داسگپتا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جس طرح بنگلادیش کے خلاف میچ میں پرفارم کیا، ہر کسی کو پاکستان سے اس ٹورنامنٹ میں ایسے ہی کھیل کی امید تھی۔

جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں دیپ داسگپتا کا کہنا تھا کہ پاکستان جس طرح چار میچز میں لگاتار ناکام ہوا تھا اس پر سب ہی کو مایوسی ہوتی تھی کیونکہ ہر کوئی ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کو ٹاپ چار ٹیموں میں دیکھ رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے میچز میں پاکستان پریشر میں لگ رہا تھا لیکن اس بار پاکستانی پلیئرز کافی پرسکون تھے۔

ایک سوال پر سابق بھارتی بیٹر نے کہا کہ پاکستان کے اگر مگر میں پھنسنے کی ذمہ داری پاکستان پر ہی عائد ہوتی ہے مگر پاکستان کی امیدیں اب بھی باقی ہیں، پاکستان کے ہاتھ میں یہ ہے کہ وہ اپنے بقیہ میچز اچھے مارجن سے جیتیں اور پھر دیکھیں دوسرے میچز میں کیا ہوتا ہے۔

دیپ داسگپتا کا کہنا تھا کہ ورلڈ کپ میں کافی اپ سیٹ ہوئے ہیں اور آگے بھی ہوسکتے ہیں، افغانستان جس طرح ٹورنامنٹ کھیل رہا ہے، اس کا آسٹریلیا سے میچ اچھا ہوگا اور اگر اس میچ میں اپ سیٹ ہوگیا تو پاکستان کیلئے کافی اچھا ہوگا۔

پاکستان کے کپتان بابراعظم سے متعلق بات کرتے ہوئے دیپ داسگپتا کا کہنا تھا کہ بابراعظم کا بہترین کھیل دیکھنا ابھی باقی ہے، وہ بڑا اسکور نہیں کر پا رہے ہیں، جس معیار کے پلیئر ہیں اور جن پلیئرز کے ساتھ ان کا موازنہ کیا جاتا ہے وہ سب بڑے اسکور کرتے ہیں، اپنی نصف سنچریوں کو سنچری میں تبدیل کرتے ہیں لیکن بابر اب تک ایسا نہیں کرپائے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ آؤٹ آف فارم تو نہیں لگتے لیکن ہوسکتا ہے کہ ان کو اوپنرز کے جلد آؤٹ ہوجانے کی وجہ سے پلیٹ فارم نہیں مل رہا ہو۔

ایک سوال پر سابق وکٹ کیپر کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں وکٹ کیپر بھی آل راؤنڈر ہوتے ہیں، دنیا کی ہر ٹیم میں وکٹ کیپرز ٹاپ چھ کے بیٹرز ہوتے ہیں، محمد رضوان کا شمار بھی دنیا کے تین بہترین وکٹ کیپرز میں ہوتا ہے۔

دیپ داسگپتا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر وائٹ بال کے بہترین وکٹ کیپرز کے نام لیں تو تین نام ہی ذہن میں آتے ہیں جن میں کوئنٹن ڈی کک، کے ایل راہول اور محمد رضوان شامل ہیں۔

دیپ داسگپتا کا کہنا تھا کہ ون ڈے کرکٹ میں تمام ٹیمیں ابتدا اور آخر کے دس اوورز ایک ہی انداز میں کھیلتی ہیں ایسے میں گیارہ سے چالیسویں اوور کا کھیل کافی اہم ہوگیا ہے جو ٹیم اس دوران اچھا پرفارم کرتی ہے، نتیجہ اسی کے حق میں آتا ہے، یہ بیچ کے اوورز ہی ٹیموں میں فرق ڈالتے ہیں۔

مزید خبریں :