بلاگ
Time 15 نومبر ، 2023

سندھ اورپنجاب، نیویارک کی سسٹراسٹیٹ کب بنیں گے؟

امریکا کی ریاست نیویارک کے ڈپٹی اسپیکر فل راموس نے سندھ اور پنجاب کو نیویارک کی سسٹراسٹیٹ بنانے کی قرارداد اگلے برس جنوری میں نیویارک اسمبلی سے منظور کرانے کی یقین دہانی کرادی ہے۔

سرکاری مہمان کی حیثیت سے فل راموس پاکستان کے چار روزہ دورے پر تھے۔اس دوران انہوں نے نگراں حکومت کے وفاقی اور صوبائی وزرا، سینیٹرز،گورنر، تاجروں، طلبہ اور دیگر سے ملاقاتیں کیں اور بعد میں اعلان کیا کہ سسٹراسٹیٹ قرارداد جنوری میں منظور کرائی جائے گی۔

اس دورے میں فل راموس کے ساتھ امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی کے بورڈ ممبر تھے جو پیشہ ورانہ لحاظ سے غیرمعمولی پوزیشنز کے حامل ہیں اور ساتھ ہی امریکی پاکستانیوں کو بہتر مقام دلانے کے لیے فعال ہیں۔

سندھ اورپنجاب، نیویارک کی سسٹراسٹیٹ کب بنیں گے؟

اپریل کے آغاز سے اے پی پیک پنجاب اور سندھ کا نیویارک سے سسٹراسٹیٹ تعلق بنانے کے لیے بھی کوشاں ہے۔

سسٹراسٹیٹ کا آئیڈیا میں نے اے پی پیک کے چئیرمین ڈاکٹر اعجاز احمد اور گورنر سندھ محمد کامران خان ٹیسوری کو دیا تھا۔

فل راموس، کامران ٹیسوری اور سینیٹر اسحق ڈار کے قائدانہ کردار اور نیویارک سے تعلق رکھنے والے ماہرامراض قلب ڈاکٹر اعجاز احمد اور انکے ساتھیوں کی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں ان 8 ماہ کے دوران اس ضمن میں مسلسل پیشرفت ہو رہی ہے۔

بدقسمتی کہیں کہ فل راموس جنہیں پہلے 28 اکتوبر کو پاکستان آنا تھا وہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر 4 نومبر کو ہی آپائے،یہی وجہ بنی کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری امریکا میں طے شدہ مصروفیات کے سبب فل راموس کی میزبانی نہ کرسکے اور وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی بھی نہ مل سکے۔

فل راموس کی قیادت میں وفد 4 نومبر کو لاہور پہنچاتھا۔سب سے پہلے وفد نے سینیٹر ولید اقبال سے ملاقات کی جو سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ ہیں۔

ہارورڈ لا اسکول سے فارغ التحصیل سینیٹر اقبال نے آزاد اور شفاف الیکشنز پر زوردیا اور کہا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ یقینی بنائے کہ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں۔ فل نے واضح کیا کہ انکے دورے کا مقصد عوامی رابطوں کو بڑھانا ہے۔

فل راموس نے بعد میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا دورہ کیا جسکی دعوت انہیں ایل سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ظفرمحمود نے دی تھی۔

سندھ اورپنجاب، نیویارک کی سسٹراسٹیٹ کب بنیں گے؟

بزنس کمیونٹی سے خطاب میں فل راموس نے کہا کہ وہ پاکستانی تاجرون کیلیے نیویارک کے دروازے کھولنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسمال اورمیڈیم انڈسٹریز سے وابستہ صنعتکاروں کیلیے بھی نیویارک میں وسیع مواقع ہیں۔

نیویارک کے ڈپٹی مئیر نے اندرون لاہور کے تاریخی مقامات کا بھی دورہ کیا۔ وہ فن تعمیر کی شاہ کار عمارتوں اور کاریگری سے متاثر نظر آئے۔ فل نے رکشہ کے سفر سے بھی لطف اٹھایا۔

مہمان کے اعزاز میں وفاقی وزیر برائے کامرس اینڈ انڈسٹریز ڈاکٹرگوہر اعجاز نے عشایہ دیا جس میں ملک کے نامور صنعتکار بھی مدعو تھے۔ خود ڈاکٹر گوہر اعجاز کا شمار بھی ملک کے صف اول کے صنتعکاروں او ایثار پسند شخصیات میں ہوتا ہے۔

بات چیت کے دوران صنعتکاروں نے ان عوامل کا ذکر کیا جن کی بنیاد پر پاکستانی اشیا کی نیویارک درآمد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کمیٹیاں بنانے پر اتفاق بھی کیا گیا۔فل نے یقین دہانی کرائی کہ سیاسی قیادت تجارت کی راہ ہموار کرنے میں ہرممکن کردار ادا کرے گی۔

فل راموس کےدورے سے چند روز پہلے ہی ملک میں دہشتگردی کی نئی لہر آئی تھی تاہم پاکستان کو محفوظ ملک قراردیتےہوئے فل راموس نے بذریعہ سڑک گوجرانوالہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کیا جس میں سابق وزیر توانائی خرم دستگیر خان بھی موجود تھے۔

فل بعد میں ایک زیر تعمیر اسپتال اور میڈیکل کالج گئے اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیویارک میں نرسوں سمیت عملے کی شدید قلت ہے جبکہ پاکستانی نرسیں اوردیگر طبی عملہ اس کمی کو پورا کرنے کا پوری طرح اہل ہے۔

فل راموس اس لحاظ سے درست بھی ہیں کہ پچھلے چند برسوں کےدوران مغربی ممالک سے لوگ پاکستان آکر نسبتا کئی گنا سستا علاج کرارہے ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر بعد میں موٹر وے کے راستے اسلام آباد روانہ ہوئے۔ پنڈی بھٹیاں کے قریب انہوں نے حادثے کے سبب کئی ٹرک الٹے ہوئے دیکھے جس میں کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔

چند ہی گھنٹوں بعد فل راموس کی ملاقات وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان سے ہوئی جس میں سیکریٹری ہیلتھ افتخار شلوانی بھی تھے۔ فل راموس نے پنجاب کے اسپتالوں کو نیبولائزر مفت دینے کااعلان کیا جبکہ ڈاکٹر ندیم جان کا کہنا تھا کہ اگر امریکن پاکستانی موٹروے پر ٹراما سینٹر بنائیں تو پاکستان حکومت انہیں زمین فراہم کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے فل راموس کو عشایہ دیا۔ وہ خود بھی یونیورسٹی آف پنسلوینیا سے تعلیم یافتہ ہیں اور سسٹراسٹیٹ منصوبے سے پوری طرح واقف بھی۔

بلیغ الرحمان نے کہا کہ یہ رشتہ دونوں اقوام کو قریب لانے میں معاون ہوگا۔ انہوں نے فل راموس کو آئندہ الیکشن کے بعد پنجاب کا ایک بار پھر دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔

فل راموس امراض قلب میں مبتلا ہیں اور صحت کے مسائل کے باوجود وہ پاکستان کےدورے پر آئے تھے۔

سینیٹر مشاہد حسین پہلے ہی اس بات سے آگاہ تھے۔انہوں نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی سروسز میں فل راموس کا پرجوش خیر مقدم کیا اور ڈپٹی اسپیکر کے ہاتھ تھام کر پاک امریکا تعلق کو مضبوط کرنے کا عزم کیا۔

فل راموس نے وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی سے بھی مختصر ملاقات کی جس میں امریکا میں پاکستان سے متعلق غلط فہمیاں دور کرنے سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔

سیکریٹری ایوی ایشن سیف انجم نے فل راموس سے ملاقات میں نیویارک کے لیے قومی ائر لائن کی براہ راست پروازوں کا اشو اٹھایا۔انہوں نے بتایا کہ کمسنوں، بوڑھوں اور بیمار افراد کے لیے دو سے تین پروازوں کے زریعے امریکا کا سفر کس قدر دشواری کا باعث بنتا ہے۔فل نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ لیں گے۔

سینیٹر اسحق ڈار جو فل راموس سے زوم پر ملاقات کرچکے ہیں، انہون نے ڈپٹی اسپیکر کو پارلیمنٹ میں اپنے چیمبر میں مدعو کیا تھا۔

جائزہ رپورٹوں کی بنیاد پر سینیٹر اسحاق ڈار نے امید ظاہر کی کہ مسلم لیگ ن نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق میں بھی کامیاب ہوگی تاہم واضح کیا کہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، سسٹر اسٹیٹ بنانے کی قرارداد منظور کیا جانا سب کی خواہش ہوگی۔

سینیٹر ڈار نے امریکی پاکستانیوں کو آبائی وطن میں میڈیکل انشورنس کی سہولت دینے سے متعلق فل راموس کی تجویز سے بھی اتفاق کیا اور طے کیا کہ اس ضمن میں ٹاسک فورس بنائی جائے۔ فل راموس نے اسے دونوں ملکوں کے مفاد میں اہم قدم قرار دیا۔

فل راموس نے بعد میں سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن سے خطاب کیا اور اے پی پیک کی ان کوشوں کو سراہا جن کی بدولت زاہد قریشی جیسے اشخاص امریکا کے پہلے وفاقی جج بنے ہیں۔

فل راموس کی اعلیٰ ترین سطح پر ملاقات وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ہوئی۔سسٹر اسٹیٹ منصوبے کو سراہتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ 'پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا سے اقتصادی اور اسٹریٹیجک تعلقات کو مضبوط بنایا جائے'۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ فل کا دورہ اس جانب پیشرفت میں معاون ہوگا۔

فل راموس کا کہنا تھا کہ اسٹاف سطح کے رابطوں کے ذریعے مختلف مفاہمت کی یادداشتیں تیار کی جائیں گی تاکہ ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھا جاسکے۔انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ اس سے پاکستان میں امریکی سرمایہ آئے گا اور اس تعلق سے امریکا کو بھی فائدہ ہوگا۔

دورے کے اختتام پر فل راموس کراچی پہنچے جہاں انکی رات دیر تک مصروفیات رہیں۔ وہ ائیرپورٹ سے سیدھے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن پہنچے جہاں طلبہ سے ملے اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر آئی بی اے ایس اکبر زیدی سے تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے پر بات کی۔

فل راموس قائداعظم محمد علی جناح کی درسگاہ سندھ مدرستہ الاسلام کے طلبہ کے وفد سے بھی ملے اور کہا کہ وہ نیویارک اور سندھ کے تعلیمی اداروں کے باہمی رابطے بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے۔

نیویارک کے ڈپٹی مئیر نے سندھ کے نگراں وزیراعلی جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر اور کابینہ کے افراد سے وزیراعلی ہاوس میں ملاقات کی ۔ اس موقع پر مئیر کراچی مرتضی وہاب بھی موجود تھے۔

نگراں وزیراعلی نے توقع ظاہر کی کہ سندھ اور نیویارک کے سسٹر اسٹیٹ تعلق سےتعاون کی نئی راہیں کھلیں گی۔ جبکہ مرتضی وہاب نے تجویزپیش کی کہ نیویارک شہر اور کراچی کو سسٹر سٹیز کا درجہ دیا جانا چاہیے۔فل راموس نے توقع ظاہر کی کہ منتخب سندھ حکومت بھی سسٹراسٹیٹ کی قرارداداسمبلی سے منظور کرے گی۔

سینیٹر فاروق نائیک جو سابق صدر آصف زرداری کے دست راست بھی ہیں، انہوں نے ملاقات میں فل راموس کویقین دہانی کرائی کہ ایسا اقدام یقینا سندھ کے مفاد میں ہوگا۔

فل راموس نے بعد میں کراچی چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا دورہ کیا۔

انہیں دورے کی دعوت دینے والے مجید عزیز اور زبیر موی والا بعض وجوہات کی بنا پر شہر میں نہ تھے اس لیے وہ شرکت نہ کرسکے تاہم ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان اقبال شیخ، صدر کے سی سی آئی افتخار احمد شیخ اور کے سی سی آئی کے سینئر نائب صدر الطاف غفار نے فل راموس کو خوش آمدید کہا۔

فل راموس نے کہا کہ سندھ اور نیویارک کے تاجروں کو ٹاسک فورس بنانی چاہیے اور وہ بی ٹوبی میٹنگز اور نیویارک میں ٹریڈ شوز کے لیے ہر ممکن سہولت دیں گے۔انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت کی طرز پر پاکستانی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے 'میڈ ان پاکستان' پلیٹ فارم بنایا جائے۔

وطن روانگی سے پہلے فل راموس اور انکے وفد نے پاکستان نرسنگ اینڈ مڈ وائفری کونسل کے صدر جواد امین خان سے ملاقات کی۔ جواد امین خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی نرسیں اور فارماسسٹ انتہائی پیشہ ور ہیں اور اگر انہیں مواقع دیے جائیں تو وہ امریکا بھر کےاسپتالوں میں اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں،یہی نہیں پاکستانی ادویات بھی امریکی مارکیٹ میں بہتر جگہ بناسکتی ہی۔

فل راموس نے کہا کہ آئندہ چند ماہ میں پاکستانی عوام تجارت، صحت اور تعلیمی میدان میں تعاون کی نمایاں پیشرفت دیکھیں گے۔

اس دورے میں فل راموس نے یقینی بنایا کہ طے شدہ ہرملاقات وقت پر ہو تاہم اے پی پیک کی جانب سے وعدہ کیے جانے کے باوجود جڑانوالہ کے متاثرین کو کیش امداد نہیں دی گئی۔

یہ افسوس ناک امر تھاکہ فیصل آباد کے بشپ اندریاس جوزف رحمت نے اے پی پیک کی خاطر فہرست تیار کی مگر متاثرین کو امداد نہ دی جاسکی۔

اس سوال پر کہ اے پی پیک نے وعدہ کیوں نہ نبھایا؟ ایک بورڈ ممبر نے کہا کہ وہ خود جڑانوالہ گئے تھے اور فیصلہ یہ ہوا کہ کیش امداد کے بجائے کچھ اور اقدام کیا جائے۔ وجہ کچھ بھی ہوا، بہتر یہ ہوتا کہ اس دورے سے بشپ کی ساکھ پرحرف نہ آتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔