17 جنوری ، 2013
اسلام آباد…سپریم کورٹ آف پاکستان میں رینٹل پاور کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیئرمین نیب کو ہدایت کی ہے کہ 15 منٹ کے اندر تمام فائلیں لے کر آئیں، چیرمین نیب کا کہنا تھا کہ عدالت تحریری طورپر یہ حکم دے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ رات 10بجے تک بھی کیس سننا پڑا تو سنیں گے۔ چیئرمین نیب فصیح بخاری نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ہماری تحقیقات میں رقم کی رضا کارانہ واپسی ہوئی ہے، قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب کی رپورٹ حقائق کے منافی ہے، لگتا ہے پراسیکیوشن کے بجائے وکیل صفائی نے رپورٹ تیار کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران چیئرمین نیب نے بتایا کہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام ثابت نہیں ہوا، تفتیشی افسر نے اہم ریکارڈ سے پہلو تہی کی، اس رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنس داخل کیا گیا تو ملزمان بری ہو جائینگے۔ اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آپ کی رپورٹ اور پراسیکیوٹر نے سپریم کورٹ فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا، آپ کے بیان اور نیب کی رپورٹ میں تضاد ہے، جس ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے رپورٹ تیار کی اس کیخلاف کارروائی کی جائے اور رینٹل پاور کیس کے تمام کیسز سے متعلق فائلیں پیش کی جائیں۔ اس موقع پر پراسیکوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے، سپریم کورٹ نیب کی تفتیش کا ریکارڈ نہیں دیکھ سکتی۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ تمام فائلیں پیش کر دونگا لیکن پراسیکوٹر جنرل نے اہم قانونی نکتہ اٹھا دیاہے، نیب آرڈیننس کے تحت ہی کام کروں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چیئرمین نیب ہیں، سپریم کورٹ کے جج نہیں، سپریم کورٹ نے تمام دستاویزات دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ دیا۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ مجھے بھی نوٹس ملا ہے، مجھے بھی سنا جائے۔چیف جسٹس پاکستان کی اٹارنی جنرل کو ہدایت آپ ابھی تشریف رکھیں۔چیف جسٹس نے چیئرمین نیب کو15 منٹ کے اندر تمام فائلیں لے کر آنے کی ہدایت کی اور سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔