Time 15 دسمبر ، 2023
پاکستان

شوکت صدیقی برطرفی کیس: سپریم کورٹ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو نوٹس جاری کردیا

آپ نے تقریرمیں کہا کہ جنرل فیض نے کہا جنرل باجوہ ناراض ہیں، اگر جنرل فیض آکرکہیں کہ جنرل باجوہ کے کہنے پرسب کیا تو پھرکڑی جُڑے گی: چیف جسٹس/ اسکرین گریب
  آپ نے تقریرمیں کہا کہ جنرل فیض نے کہا جنرل باجوہ ناراض ہیں، اگر جنرل فیض آکرکہیں کہ جنرل باجوہ کے کہنے پرسب کیا تو پھرکڑی جُڑے گی: چیف جسٹس/ اسکرین گریب

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے شوکت صدیقی برطرفی کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کردیے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی،  جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت بھی بینچ میں شامل ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے بتایا کہ ان کے مؤکل نے اپنی درخواست میں فریقین کے نام ڈال دیے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی تقریر پر برطرف کیا گیا، سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں، وہ جنرل جنہیں آپ فریق بنانا چاہتے ہیں کیا وہ خود 2018 میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟

اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے: 
چیف جسٹس پاکستان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے، جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟ اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو وہ وزیراعظم کو ہٹا کر کسی اور کو لانا چاہ رہے ہوں گے تو وہ کون تھا۔

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے مؤکل کی جانب سے لگائے گئے الزامات درست ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہا تھا کیا کوئی فوجی افسر خود وزیراعظم بننا چاہتا تھا؟ سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔

 فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی: حامد خان کا مؤقف

وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ایک امیدوار کو سائڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔

سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی نے کہا فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ فوج کو چلاتا کون ہے؟ 

وکیل حامد خان نے کہا فوج حکومت کے ماتحت ہے،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا حکومت فرد نہیں ہے، جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں،جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے، یہ آسان راستہ نہیں ہے، شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے انکے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے جبکہ وکیل بارکونسل صلاح الدین نے کہا سابق جج نے تحریری جواب میں جن کا نام لیا ہم ان کو فریق بنا رہے۔

قمرباجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے، قمر باجوہ نے شوکت عزیز  سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی: چیف جسٹس

وکیل صلاح الدین نے کہا شوکت عزیز صدیقی نے بانی پی ٹی آئی سمیت کسی اورکو فائدہ دینے کی بات نہیں کی، مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے کسی کا نام نہیں لے سکتے، جس پر چیف جسٹس نے بار کونسل کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اس کامطلب ہےکہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں، کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کر دیں، کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں؟  

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کیا ہمارے کندھے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں؟ نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے، کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟ 

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ ہوا؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا ہم نے انکوائری کی درخواست کی تا کہ حقائق سامنے آئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا سندھ بار شوکت صدیقی کی پنشن کیلئے آئی ہےتو یہ 184 تھری کا دائرہ کار نہیں بنتا، ہمیں نا بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں، آپ معاونت کریں، جو کرنا ہے ہم کریں گے۔

قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا، جنرل ریٹائرڈ قمرباجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے، قمر جاوید باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔

جسٹس مندوخیل کا کہنا تھا کیا چیف جسٹس ہائیکورٹ نے وہ بینچ بنایا تھا جو فیض حمید چاہتے تھے؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا جو فیض حمید چاہتے تھے وہ ہوا، فیض حمید چاہتے تھے  الیکشن 2018 سے پہلے نواز شریف کی ضمانت نہ ہو۔

شوکت صدیقی نے چند افراد پر سنگین الزامات عائد کیے، عدالت سمجھتی ہے جن پر الزامات لگائے انہیں جواب کا موقع دیا جائے: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے کہا اب آپ خود معاملہ الیکشن 2018 تک لے آئے ہیں جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا نواز شریف کی اپیل پر کیا فیصلہ ہوا؟ حامد خان نے بتایا اپیلوں پر ابھی فیصلہ ہوا اور نوازشریف بری ہوگئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جنرل باجوہ سے تو کڑی نہیں جُڑ رہی، آپ کہتے ہیں کہ فیض حمید جنرل باجوہ کے کہنے پر آئے؟ جنرل قمرجاوید باجوہ پر تو براہ راست الزام ہی نہیں، آج کل تو لوگ کسی کا بھی نام استعمال کر لیتے ہیں، میرے خیال سے رامے بھی اس کیس سے غیر متعلقہ ہیں۔

عدالت نے سماعت کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید  کو نوٹس جاری کردیا جب کہ عدالت نے بریگیڈئیر (ر) عرفان رامے، سپریم کورٹ کے سابق رجسٹرار ارباب عارف اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس انور کاسی کو بھی نوٹس جاری کردیے۔

عدالت نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے چند افراد پر سنگین الزامات عائد کیے، سپریم کورٹ سمجھتی ہے جن پر الزامات لگائے انہیں جواب کا موقع دیا جائے۔

اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا نام استعمال کرکے ایک وکیل نے ڈپٹی کمشنر سے کام کرالیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرا بھی نام استعمال ہوسکتا ہے مگرجس کے بارے میں ثبوت ہو وہ بات کریں، ہم جنرل باجوہ کونوٹس کردیں،کل ہمارے اوپر بات آئے گی کہ غلط نوٹس ہوا،  آپ نے تقریرمیں کہا کہ جنرل فیض نے کہا جنرل باجوہ ناراض ہیں، اگر جنرل فیض آکرکہیں کہ جنرل باجوہ کے کہنے پرسب کیا تو پھرکڑی جُڑے گی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔

مزید خبریں :