اس موسم میں مونگ پھلی، اخروٹ، بادام اور پستے جیسی گریاں کھانے کے فوائد جانیں

اس موسم میں گریاں کھانا بیشتر افراد کو پسند ہوتا ہے / فائل فوٹو
اس موسم میں گریاں کھانا بیشتر افراد کو پسند ہوتا ہے / فائل فوٹو

گریاں صحت کے لیے بہت زیادہ مفید ہوتی ہیں اور متعدد دائمی امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

گریوں سے فائبر، اینٹی آکسائیڈنٹس، وٹامنز، منرلز، پروٹین اور صحت کے لیے مفید چکنائی جسم کو ملتے ہیں۔

سرد موسم میں گریاں کھانا بیشتر افراد کو پسند ہوتا ہے۔

تو اس موسم میں ان گریوں کو کھانے کے فوائد جانیں جو بیشتر افراد کھانا پسند کرتے ہیں۔

مونگ پھلی

مونگ پھلی پروٹین، چکنائی اور فائبر سے بھرپور ہوتی ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ چکنائی کی یہ قسم صحت کے لیے مفید خیال کی جاتی ہے جس سے کولیسٹرول لیول کم ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ مونگ پھلی میگنیشم، فولیٹ، وٹامن ای، کاپر، کیلشیئم، آئرن، زنک، فاسفورس، وٹامن بی 3، وٹامن بی 1، وٹامن بی 6 اور وٹامن بی 2 کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔

تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہے کہ مونگ پھلی دل کی صحت کے لیے اخروٹ اور باداموں جتنی ہی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

اسی طرح پروٹین سے بھرپور غذاؤں سے پیٹ بھرنے کا احساس زیادہ دیر تک برقرار رہتا ہے اور مونگ پھلی میں پروٹین کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے، جس سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔

تحقیقی رپورٹس سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ مونگ پھلی کھانے سے ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

مونگ پھلی فائبر کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے جس سے نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور جسمانی ورم میں کمی آتی ہے۔

وٹامن بی 3 سے بھرپور ہونے کے باعث مونگ پھلی جِلد کی صحت کے لیے بھی مفید ثابت ہوتی ہے۔

وٹامن بی 3 اعصابی نظام، نظام ہاضمہ اور جِلد کے لیے بہت اہم ہوتا ہے اور غذا کے ذریعے اس کے زیادہ استعمال سے عمر بڑھنے کے ساتھ جھریاں ابھرنے کا امکان کم کرتا ہے۔

مونگ پھلی کھانے سے دماغی تنزلی کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مونگ پھلی کھانے سے امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے اور دل کی صحت بہتر ہونے سے دماغی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

پستے

پستے کی 28 گرام مقدار کھانے سے جسم کو 159 کیلوریز، 8 گرام کاربوہائیڈریٹس، 3 گرام فائبر، 6 گرام پروٹین، 13 گرام چکنائی، پوٹاشیم، فاسفورس، وٹامن بی 6، کاپر، وٹامن بی 1 اور Manganese جیسے اجزا ملتے ہیں۔

اس گری کی خاص بات وٹامن بی 6 ہے جو متعدد جسمانی افعال بشمول بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

پستے بھی جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے بہترین ہوتے ہیں۔

اس گری میں فائبر اور پروٹین کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے اور یہ دونوں غذائی اجز ا پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرے رکھنے اور کم کھانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

پستے فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ غذائی جز نظام ہاضمہ کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔

فائبر کو ہمارا جسم ہضم نہیں کر پاتا اور یہ غذائی جز معدے میں موجود صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی غذا بنتا ہے۔

یہ بیکٹریا فائبر کو شارٹ چین فیٹی ایسڈز میں تبدیل کر دیتے ہیں جس سے صحت کو متعدد فوائد ہوتے ہیں اور نظام ہاضمہ کے متعدد امراض سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

پستے کھانے سے امراض قلب سے بچنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

اس گری میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس سے بلڈ کولیسٹرول کی سطح کم ہوتی ہے جبکہ بلڈ پریشر مستحکم ہوتا ہے، جس سے امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ پستے کھانے سے بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ پستے کھانے کی عادت سے ذیابیطس ٹائپ 2 یا ہائی بلڈ شوگر کے شکار افراد کی بلڈ شوگر کی سطح بہتر ہوتی ہے جبکہ انسولین کی مزاحمت کم ہو جاتی ہے۔

اخروٹ

اخروٹ میں چکنائی، فائبر، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، پوٹاشیم، وٹامن ای، میلاٹونین اور پولی فینولز جیسے اجزا موجود ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ گری اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔

جرنل نیوٹریشنز میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ کھانے سے بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے۔

جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ میں موجود چکنائی ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ اخروٹ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے اور یہ غذائی جز ورم کش ہوتا ہے جس سے دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

جاما انٹرنل میڈیسن میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ خون میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی مقدار بڑھنے سے ہارٹ اٹیک سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ سمیت دیگر گریوں کے استعمال سے ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ 30 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی فرد ذیابیطس کا مریض ہے تو اخروٹ کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اگرچہ اخروٹ میں کیلوریز کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے مگر تحقیقی رپورٹس کے مطابق اس سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس میں موجود متعدد اجزا جیسے فائبر اور پروٹین اس حوالے سے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اخروٹ میں موجود غذائی اجزا جسمانی توانائی میں اضافہ کرتے ہیں جس سے دن بھر مستعد رہنے میں مدد ملتی ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ کھانے کی عادت سے دماغی تنزلی کی رفتار گھٹ جاتی ہے۔

تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ میں موجود اجزا معدے میں موجود صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی نشوونما بڑھاتے ہیں۔

بادام

بادام کھانے کی عادت جسم میں نقصان دہ کولیسٹرول ایل ڈی ایل کی سطح میں کمی لاتی ہے اور صحت کے لیے مفید کولیسٹرول ایچ ڈی ایل کی سطح بڑھاتی ہے۔

بادام ورم کش اور اینٹی آکسائیڈنٹس خصوصیات سے لیس ہوتے ہیں جس سے بھی امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

بادام کھانے سے بلڈ پریشر کی سطح میں بھی کمی آتی ہے جس سے بھی امراض قلب سے مزید تحفظ ملتا ہے۔

اگرچہ باداموں میں کیلوریز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے مگر اس گری کو کھانا جسمانی وزن میں اضافے اور موٹاپے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

بس آپ کو باداموں کی تعداد کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بادام میں متعدد طاقتور اینٹی آکسائیڈنٹس موجود ہوتے ہیں خاص طور پر وٹامن ای۔

وٹامن ای جسم میں خلیات کو تکسیدی تناؤ سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ وٹامن ای کے استعمال سے امراض قلب، الزائمر اور کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

باداموں میں کیلشیئم اور فاسفورس جیسے اجزا بھی ہوتے ہیں جو ہڈیوں کی صحت کو بہتر بناتے ہیں اور فریکچر کا خطرہ کم کرتے ہیں۔

کھانے کے بعد بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے مگر بادام اس کی روک تھام کرتے ہیں جو ذیابیطس کے مریضوں کی صحت کے لیے اہم ہوتا ہے۔

حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ بادام غذائی نالی کی صحت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، نظام ہاضمہ صحت مند ہو تو مدافعتی نظام بھی بہتر کام کرتا ہے اور جسم مضبوط ہوتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :