انزائٹی جیسے مرض کی شدت بدترین بنانے والی غذائیں

انزائٹی موجودہ عہد میں بہت تیزی سے عام ہونے والا عارضہ ہے / فائل فوٹو
انزائٹی موجودہ عہد میں بہت تیزی سے عام ہونے والا عارضہ ہے / فائل فوٹو

انزائٹی ( گھبراہٹ، پریشانی اور ڈر) روزمرہ کی مصروفیات کا ایک نتیجہ ہے اور اس کی معمولی شدت نقصان دہ بھی نہیں کیونکہ اس سے آپ کو خطرے سے آگاہی ، مختلف حالات کے لیے تیار رہنے اور خطرات کا تخمینہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔

مگر جب اس کیفیت کا سامنا روزانہ کی بنیاد ہو تو یہ اشارہ ہوتا ہے کہ اب اس کی روک تھام کے لیے کچھ کیا جائے۔

انزائٹی پر توجہ نہ دی جائے تو اس سے معیار زندگی بہت بری طرح متاثر ہوسکتا ہے ۔

انزائٹی جسم کا تناؤ کے لیے قدرتی ردعمل ہے، یہ خوف یا فکر کی ایسی کیفیت ہوتی ہے جو مختلف عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے ۔

دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ جانا، سانس چڑھنا، تھکاوٹ اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اس کی کچھ عام علامات ہیں۔

ویسے ہر فرد میں اس کا اظہاریا علامات مختلف ہوسکتی ہیں، جیسے ایک فرد کو شدید گھبراہٹ کا سامنا ہوسکتا ہے تو دوسرے کو تکلیف دہ خیالات یا ڈر کے دورے پڑسکتے ہیں۔

کئی بار آپ کی غذائی عادات بھی انزائٹی کی شدت میں اضافہ کر دیتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق کھانے کے بعد سب پر ہی مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ہمارے رویے اور مزاج پر غذائی اجزا اثر انداز ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تناؤ ہماری غذائی عادات پر اثر انداز ہوتا ہے مگر اکثر ہماری غذا بھی تناؤ کی سطح بڑھاتی ہے۔

تو ان غذاؤں کے بارے میں جانیں جو انزائٹی کی شدت بڑھا سکتی ہیں۔

کافی

کافی اور انزائٹی کے درمیان تعلق موجود ہے اور اس کی وجہ کیفین ہے۔

کیفین میں موجود مرکبات انزائٹی کی شدت بڑھانے کا باعث بنتے ہیں اور ماہرین نے بتایا کہ کیفین کے استعمال سے تناؤ بڑھانے والے ہارمون کا اخراج ہوتا ہے جس سے دل کی دھڑکن کی رفتار اور بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔

تناؤ بڑھانے والے ہارمونز سے انزائٹی کی شدت بڑھتی ہے جبکہ سونا مشکل ہوتا ہے اور نیند کی کمی بھی انزائٹی کو بدتر بناتی ہے۔

انرجی ڈرنکس

انرجی ڈرنکس میں بھی کیفین کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے اور کیفین کے اثرات کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ انرجی ڈرنکس کے استعمال اور ذہنی مسائل جیسے انزائٹی، تناؤ اور ڈپریشن کے درمیان تعلق موجود ہے۔

انرجی ڈرنکس کے استعمال سے دل کی دھڑکن کی رفتار اور بلڈ پریشر میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ دل کی برقی سرگرمیوں میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں، جس سے انزائٹی کی شدت بھی بڑھتی ہے۔

سفید ڈبل روٹی، چاول یا پاستا

ان تینوں کو پراسیس کیا جاتا ہے اور ان میں ریفائن چینی بھی ہوتی ہے جس سے مزاج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق سفید ڈبل روٹی یا چاول کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح میں تیزی سے اضافہ اور کمی آتی ہے۔

بلڈ شوگر کی سطح میں کمی اور اضافے کو انزائٹی سے منسلک کیا جاتا ہے۔

چینی کھانے سے کچھ وقت کے لیے اچھا احساس ہوتا ہے مگر جب بلڈ شوگر کی سطح میں کمی آتی ہے تو پھر انزائٹی کی شدت بڑھتی ہے۔

سافٹ ڈرنکس

سافٹ ڈرنکس جیسے سوڈا میں کیفین اور چینی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے اور ان دونوں سے ہی انزائٹی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ میٹھے مشروبات کے استعمال سے ذہنی مسائل جیسے انزائٹی کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ جسمانی ورم اور چربی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

چاکلیٹ

چاکلیٹ سے تناؤ میں کمی آتی ہے مگر اس میں کیفین اور چینی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جس سے انزائٹی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق چاکلیٹ صحت کے لیے مفید ہوتی ہے مگر اعتدال میں رہ کر اسے کھانا ضروری ہے۔

تلی ہوئی غذائیں

تلی ہوئی غذائیں جیسے فرنچ فرائیز کو کھانے سے نہ صرف انزائٹی بلکہ ڈپریشن کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

درحقیقت ڈپریشن کے 50 فیصد مریضوں کو انزائٹی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

تلی ہوئی غذاؤں کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس ٹائپ 2، ہارٹ فیلیئر، موٹاپے اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

پھلوں کے جوس

زیادہ تر پھلوں کے جوسز میں چینی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔

فروٹ جوسز میں صحت کے لیے مفید غذائی اجزا نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں جبکہ چینی بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے اور انزائٹی کی شدت بڑھتی ہے۔

کیچپ

کیچپ میں بھی چینی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو بلڈ شوگر کی سطح پر اثرانداز ہوتی ہے۔

چینی کے انزائٹی پر مرتب اثرات کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

مصنوعی مٹھاس

مصنوعی مٹھاس میں چینی تو نہیں ہوتی اور کیلوریز بھی کم ہوتی ہیں مگر اس کے استعمال سے بھی انزائٹی پر چینی یا کیفین جیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ مصنوعی مٹھاس کے زیادہ استعمال سے تھکاوٹ، چڑچڑے پن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوجانے جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :