09 جنوری ، 2024
پشاور ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشد علی پر مبنی دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اسکندر مہمند ایڈوکیٹ نے دلائل مکمل کیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے آئین کے مطابق 3 جون کو انتخابات کروائے، الیکشن کمیشن نے ہمارے انتخابات کالعدم قرار دیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں دوبارہ انتخابات کرانے کی ہدایت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پارٹی انتخابات کرائے اور فارم 65 الیکشن کمیشن کو دیا، الیکشن کمیشن 7 دن میں سرٹیفکیٹ شائع کرتا لیکن کمیشن نے 14 اعتراضات اٹھائے۔
وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھاکہ اعتراض کنندہ دوبارہ انتخابات چاہتے ہیں لیکن وہ پارٹی ممبرنہیں، ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں یہ ووٹرز تھے ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے بھی فیصلے میں مانا کہ انتخابات صحیح ہوئے لیکن جنرل سیکرٹری کی تعیناتی پرانتخابات کالعدم قرار دیے۔
انہوں نے مزید دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کو غلط قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا، کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات کے عمل کو جانچنے کا حق نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ سب اعتراض کنندہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات ہوئے ہی نہیں، امیدواروں کو انتخابات لڑنے کا موقع نہیں دیا گیا، اس سیاسی جماعت کو کئی مواقع دیے گئے کہ قانون کے مطابق چلے، انھیں بتایا گیا کہ قانون پر اگر عمل نہیں کیا تو سزا ہوگی جس پر ان کا انتخابی نشان واپس لیا۔
وکیل نے مزید کہا کہ ان کو نوٹس اورشوکاز جاری کیا گیا، گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی نے کورونا کے باعث ایک سال کا وقت مانگا، ایک سال بعد ان کو یاد دہانی کرائی کہ پارٹی انتخابات کرائیں، کئی نوٹسز بھی جاری کیے لیکن کوئی عمل نہیں کیا، یہ پارٹی الیکشن قانون کے مطابق کرانے میں ناکام رہی، اس وجہ سے الیکشن کمیشن نے ان کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔
عدالت نے تقریباً 2 گھنٹے کے دلائل سننے کے بعد دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔