15 جنوری ، 2024
بّلے کا نشان بیلٹ پیپر پر نہیں ہوگا یعنی تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت 8 فروری کے انتخابات سے باہر ہوگئی۔ اب پارٹی کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے یعنی کسی کا انتخابی نشان کرسی ہو گا، تو کسی کا پھول، کوئی ہارمونیم کے نشان پر الیکشن لڑے گا تو کسی کو جہاز، فاختہ، مور جیسے کئی دوسرے انتخابی نشانات پر ووٹ مانگنے پڑیں گے۔
اتنے بڑے بڑے وکیلوں کے ہوتے ہوئے بھی تحریک انصاف اپنا کیس سپریم کورٹ میں بھی ہار گئی، انٹرا پارٹی الیکشن بھی قانونی تقاضوں کے مطابق نہ کروا سکی، نہ ہی الیکشن کمیشن کو مطمئن کر سکی اور اوپر سے بلّے کے نشان کے جانے کی صورت میں بلّے باز کا نشان بھی نہ لے سکی۔ یعنی تحریک انصاف کا پلان اے بھی فیل ہو گیا اور پلان بی بھی ناکام، نہ بلّا رہا نہ بلّے باز۔
اس صورتحال تک تحریک انصاف کو پہنچانے کا کون کون ذمہ دار ہے اس کیلئے عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت کو دوسروں کی طرف انگلیاں اُٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے گریبانوں میں بھی ضرور جھانکنا چاہیے کہ پارٹی اور اس کے رہنمائوں سے کہاں کہاں غلطیاں بلکہ بلنڈرز ہوئے۔
بلّے کے نشان کا بیلٹ پیپر پر نہ ہونے نے بلاشبہ انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے اور اس بات کا افسوس اپنی جگہ کہ ایک بڑی سیاسی جماعت بحیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی لیکن سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے والے مقدمہ میں دو دن کی طویل بحث کو سننے کے بعد کسی کو اس بات کا شک نہیں کہ تحریک انصاف کا کیس بہت کمزور تھا، اس کے وکیلوں کے پاس نہ ثبوت تھے نہ مضبوط قانونی نکات۔
اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بُرا بھلا کہنے سے اور اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے اُن کی ٹرولنگ کرنے سے تحریک انصاف والے اپنے آپ کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ بار بار موقع دیے جانے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروایا اور جب کروایا تو وہ محض کاغذی کارروائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
قانونی طور پر تو تحریک انصاف کے وکیلوں کے پاس کچھ نہ تھا اس لیے سارا زور کیس کے سیاسی پہلو پر ڈالا گیا اور بار بار یہ کہا گیا کہ اتنی بڑی سیاسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کا سیاست، جمہوریت اور سسٹم کو بہت نقصان ہوگا۔
عدالتی کارروائی کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ تحریک انصاف انتخابی نشان سے محروم ہوئی تو اُس کے امیدوار پھر بھی الیکشن لڑیں گے لیکن آزاد حیثیت سے۔
سپریم کورٹ کے تین ججوں نے متفقہ طور پر جو فیصلہ دیا وہ قانونی نوعیت کا تھا اور اُس میں سیاسی پہلو کو نظر انداز کیا گیا، جس پر قاضی فائز جیسے جج پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر یہ فیصلہ دیا۔
اگر سیاسی فیصلہ کیا جاتا اور قانونی نکات کو نظر انداز کیا جاتا تو پھر کہا جاتا کہ یہ تو سیاسی فیصلہ ہے جس میں قانون اور آئین سے ایک لاڈلے کی خاطر پہلو تہی کی گئی۔
اگر تحریک انصاف آج سے دو سال پہلے، ایک سال پہلے یا چھ ماہ پہلے ہی الیکشن کمیشن کے بار بار کہنے پر انٹرا پارٹی الیکشن کروا دیتی تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
یاد رہے کہ یہ مسئلہ الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف کے درمیان عمران خان کی حکومت کے دور سے چل رہا ہے اور یہ وہ دور تھا جب خان صاحب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی۔
کہا جا رہا ہے کہ انتخابات سے ایک ماہ قبل سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیوں دیا؟ ذرا سوچیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے کوئی سوموٹو لیا؟ تحریک انصاف کے کسی مخالف کی درخواست کو سنا؟ یا تحریک انصاف کی اپنی اپیل پر فیصلہ دیا جو دو تین دن پہلے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اور یہ درخواست کی گئی کہ اس اپیل کو فوری سنا جائے جس کیلئے عدالت کو ہفتہ کے روز بھی پورا دن بیٹھنا پڑا۔ اس فیصلے کی ٹائمنگ کا تعلق تحریک انصاف کے اپنے فیصلوں اور اپنے اقدامات سے تھا۔
تحریک انصاف کو یقیناً فوج پر 9 مئی کے حملےاور اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول لینے پر کئی مشکلات کا سامنا ہے لیکن یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تحریک انصاف کی لڑائی چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو لڑنی چاہیے، اُنہیں دو تین جرنیلوں کے خلاف فیصلے دینے چاہئیں اور عمران خان کو جیل سے نکال کر اقتدار کی کرسی میں بٹھا دینا چاہیے تو پھر ہی وہ اچھے جج کہلوانے کے اہل ہوں گے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا ماضی گواہ ہے کہ وہ کسی دباؤ میں نہ فیصلہ کرتے ہیں نہ اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے خوفزدہ ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فیصلے بھی دیے اور اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ حمایت سے عمران خان کی حکومت میں اپنے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس اور اپنی اہلیہ سمیت ہراساں کیے جانے کی تمام کوششوں کا بڑی جرات مندی سے مقابلہ کیا اور تمام الزامات کو کھلی عدالت میں غلط ثابت کیا۔
اُنہوں نے چیف جسٹس بننے کے بعد گزشتہ چند مہینوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے متعلق فیض آباد دھرنا کیس سمیت مشکل مقدمات (جن کو سابق چیف جسٹسز نے فائلوں میں دبا دیا تھا) کو کھول کر کھلی عدالت میں سنا اور ایکشن لیا۔
جسٹس فائز کے فیصلے پر اعتراض ہو سکتا ہے، اُن کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن کیا ایسا جج تحریک انصاف اور اُس کی سوشل میڈیا کی ٹرولنگ سے خوفزدہ ہو کر اُن کیلئے ’’اچھا جج‘‘ بن سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔