بلاگ
Time 14 فروری ، 2024

حکومت سازی اور پاکستان کھپے!

پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 54 نشستیں حاصل کر کے بھی وفاقی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کیوں کردیا؟ کیا وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کی جانب سے نامزد وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی مکمل حمایت کی یقین دہانی تو کرائی ہے مگر بلاول بھٹو اس عہدے اور وفاق میں وزارتیں لینے سے ایک قدم پیچھے ہٹ گئے؟ اور آخر نوازشریف نے شہبازشریف ہی کو وزیراعظم کا امیدوار کیوں نامزد کیا؟یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت ہر شخص کے ذہن میں ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن میں ن لیگ کو جس قدر بھی نشستیں ملی ہیں، وہ میاں نوازشریف کی ہی مرہون منت ہیں۔نوازشریف وطن واپس نہ آتے، ان کی جگہ شہبازشریف یا مریم نواز وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہوتیں تو ن لیگ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر آدھی نشستیں بھی حاصل نہ کرپاتی۔

یہی وجہ ہے کہ الیکشن میں فتح کی تقریر بھی میاں نوازشریف ہی نے کی مگر ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ انہوں نے شہبازشریف کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ سابق اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کریں۔شاید کسی سمجھوتے کا امکان اس وقت بھی موجود تھا۔

یہ اس لیے بھی ہے کہ شہبازشریف کو ہی اتحادی جماعتوں سے ملنا تھا تو نوازشریف ایم کیوایم کے وفد سے خود کیوں ملے؟کیا وجہ تھی کہ 54 نشستوں والی پیپلزپارٹی سے ملنے شہبازشریف کو بھیجا اور 17 نشستوں والی ایم کیوایم سے خود ملاقات کرلی؟

یہ الگ بحث ہے کہ عملی طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ کون کس حد تک ہے اور کون نہیں؟ یہ ضرور واضح ہے کہ پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو غالباً ًاسی شرط پر ووٹ دینے کی حامی بھری ہے کہ نوازشریف اس دوڑ میں شامل نہ ہوں۔ورنہ بلاول بھٹو نہ سہی، آصف زرداری تو کم سے کم نوازشریف سے ملاقات کر سکتے تھے۔

چوہدری شجاعت کے گھر تمام سابقہ اتحادی رہنماؤں کی میٹنگ میں نوازشریف کی عدم شرکت بھی اسی بات کی عکاس تھی کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا۔نوازشریف کا اس ملاقات میں بھی شہبازشریف ہی کو بھیجنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔

بلاشبہ ن لیگ کے پاس پیپلزپارٹی کے ووٹ مانگنے کے سوا چارہ نہیں لیکن جذبات سے ہٹ کر دیکھاجائے تو نوازشریف کی جانب سے یہ بڑی قربانی ہے کہ وہ خود پیچھے ہٹ کر ایک بار پھر شہبازشریف کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ چاہتے توالیکشن نامنظور کہہ کر پورا کھیل بگاڑ سکتے تھے۔

تاثر ہے کہ میاں نوازشریف کو پیپلزپارٹی سے زیادہ خود میاں شہبازشریف نے نقصان پہنچایا ہے۔ ووٹ کو عزت دو بیانیہ کی جس بھونڈے انداز سے شہبازشریف نے تشریح کی، اس سے انہوں نے اس بیانیے کو ہی مذاق بنا دیا تھا۔

بیانیہ نوازشریف کا تھا، اس لیے منطقی بات تو یہ تھی کہ شہبازشریف صحافیوں کےسوال نوازشریف کی طرف اچھال دیتے مگر اپنے انٹرویوز میں انہوں نے اس بیانیے کی ایسی ایسی جیہات پیش کیں کہ نظام سے لڑنے والے نوازشریف کا امیج متاثر کردیا۔

دور کی کوڑیاں لانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف نوازشریف کو پی ٹی آئی نے آڑے ہاتھوں لیا تو دوسری طرف بلاول بھٹو کو بھی نوازشریف کے خلاف مزید کھل کر کھیلنے کا موقع ملا۔

اسی لیے پیپلزپارٹی کیلئے اب میاں نوازشریف ناقابل قبول تھے کیونکہ بلاول بھٹو کی تمام تر انتخابی مہم صرف ایک شخص کے خلاف تھی اور وہ تھے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف۔

بلاول بھٹو نے دسمبر ہی میں کہہ دیا تھا کہ نوازشریف یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ'مجھے کیوں بلایا' اور پھر یہ بھی کہ جس طرح عمران خان کو حکومت سے نکالا گیا تھا اسی طرح نوازشریف کو بھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔اس طرح بلاول بھٹوکے بیانیے کی جیت ہوگئی۔

جہاں تک مریم نواز کے وزیراعلی پنجاب نامزد ہونے کا تعلق ہے، یہ بات پہلے ہی طے تھی کہ پنجاب میں حکومت بنی تو وزیراعلیٰ مریم نواز ہوں گی۔راقم الحروف نے 28 نومبر 2023 ہی کو اسی ویب سائٹ کیلیے مضمون' مریم نواز ہی وزیراعلی پنجاب کیوں بنیں گی' لکھ کر اس کی وجہ بھی بتائی تھی۔

ایک ایسے وقت کہ جب ملک بحرانوں سے دوچار ہو، وزیراعظم کے عہدے کے لیے مریم نواز کی نامزدگی ناممکن تھی۔ شہبازشریف نے نادان دوست والا کام کیا ہو مگر میاں نوازشریف کے پاس ان جیسا بااعتماد شخص اور کوئی نہیں تھا۔شاہد خاقان عباسی جیسی شخصیات کو وزیراعظم بنانے کا نتیجہ نوازشریف پہلے ہی بھگت چکے ہیں۔

شہبازشریف کے ساتھ حکومت میں پیپلزپارٹی کا 16 ماہ کا تجربہ کیسا ہی رہا ہو۔یہ غیر معمولی بات ہے کہ بلاول بھٹو اس بار شہبازشریف کے ساتھ کام کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ ملک کو معاشی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی پوزیشن رکھنے والی پی ٹی آئی کو کاؤنٹر کرنا نظر آتی ہے۔

پی ٹی آئی 92 سیٹوں کے ساتھ اس وقت بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے، یہ الگ بات ہے کہ اپنے زُعم میں پی ٹی آئی ڈیڑھ سو سے زائد سیٹیں حاصل کرنے کی دعویدار ہے اور اسی لیے کسی اتحادی کے ساتھ حکومت بنانے کی بجائے سولو فلائٹ کی کوشش میں ہے۔

پی ٹی آئی کا یہ طرزعمل اس بات کی علامت ہے کہ اس کی قیادت زمینی حقائق سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ اگر عمران خان پیپلزپارٹی کے رہنما آصف زرداری کو چند برس پہلے مفاہمت کی پس پردہ پیشکش کر چکے ہیں تو آج بلاول بھٹو کو ایسی ہی پیشکش کرکے اخلاقی دباؤ کا شکار تو کیا جاسکتا تھا۔

اب ان حالات میں قربانی ایک طرف نوازشریف دے رہے ہیں تو دوسری طرف وزارت عظمیٰ یا وفاق میں وزارتیں نہ لے کر بلاول بھٹو بھی۔یقیناً بلاول بھٹو، ان کی جیت میں کردار ادا کرنیوالے پیپلزپارٹی کے رہنما اور جیالے وزارتوں سے محروم ہو رہے ہیں مگر یہ سیاست کا حصہ ہے۔

حکومت سازی سے متعلق اس حکمت عملی میں بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے زرداری سب پہ بھاری ہی ثابت ہوں گے کیونکہ ملک کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے فی الوقت یہ قربانی زیادہ مہنگی نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔