17 فروری ، 2024
پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے میاں شہباز شریف کو وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کیے جانے سے ایک مرحلہ تو مکمل ہوگیا مگر کابینہ کی تشکیل کا کڑا امتحان باقی ہے۔
پارٹی میں بعض حلقوں کی جانب سے لاکھ مخالفت سہی مگر وزارت خزانہ کیلئے اسحاق ڈار سے زیادہ کوئی بھی موزوں شخصیت ن لیگ کے پاس نہیں۔
ملک میں خارجہ اور دفاع کی وزارتیں بظاہر کتنی ہی پُرکشش سہی، لیکن ریاست کے ان اہم ترین معاملات سنبھالنے والوں کے پاس کس قدر اختیار ہوتا ہے، یہ دنیا جانتی ہے۔ ہاں وزارت خزانہ ایسی وزارت ہے جہاں فن کے جوہر دکھا کر اپنی پارٹی کا سیاسی اور ملک کا معاشی مستقبل سنوارا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ نوازشریف کو منظر سے آؤٹ کرنے کے بعد اُن کے دست راست اسحاق ڈار کا مستقبل کس قدر روشن ہے؟
ن لیگ کے ناراض رہنما شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور محمد زبیر کافی عرصے سے اسحاق ڈار کیخلاف محاذ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اسحاق ڈار نجکاری کی راہ میں رکاوٹ بنے اور ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
اسحاق ڈار کو اپنوں ہی کی تنقید کا سامنا رہا ہو تو ان پر انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو طنز کے تیر نہ برساتے، یہ کیسے ممکن تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ اتحادی حکومت میں فیصلے اتحادیوں کی مرضی سے کیے جاتے ہیں نہ کہ فرد واحد من مانی کرتا ہے۔تنقید اس وقت ہونی چاہیے جب فیصلہ کیا جارہا ہو تاکہ غلط فیصلوں پر عمل ہونے سے روکا جائے، نہ کہ وقت گزرنے کے بعد بات کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دیا جائے۔
دو رائے نہیں کہ اس بارحکومت کو سب سے بڑا چیلنج ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کا درپیش ہے۔یہی وجہ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر جمع تمام رہنما متفق تھے کہ میثاق معیشت کیا جانا چاہیے تاکہ مشکل فیصلے لینے کا بوجھ تمام اتحادی مل کر اٹھائیں۔ مِیٹھا مِیٹھا ہَپ اور کڑوا کڑوا تُھو نہ ہو۔
اسحاق ڈار اسے ممکن بنا سکتے ہیں۔ ان کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے کہ ڈالر کو قابو میں رکھا، برآمدات بڑھائیں، زرمبادلہ لانے اور روزگار بڑھانے کے اقدامات کیے۔ اس بار یہ چیلنج ماضی سے کئی گنا بڑا سہی مگر اسحاق ڈار یہ کرشمہ کر سکتے ہیں۔
جس طرح سیاسی جماعتیں حکومت سازی سے متعلق کمیٹیاں بنا رہی ہیں، اسی انداز میں ہر سیاسی جماعت کو اپنے چوٹی کے معیشت دانوں پر مشتمل کمیٹی بنا کر میثاق معیشت تیار کرنا چاہیے۔اس میں بھی ن لیگ کے پاس اسحاق ڈار سے بہتر کوئی شخصیت نہیں۔
وجہ یہ بھی ہے کہ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان تاریخی میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھنے میں اسحاق ڈار پیش پیش رہے تھے، وہی 36 نکاتی میثاق جمہوریت جس میں دیگر کئی اہم امور کے ساتھ ساتھ عوام کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے کا عزم کیا گیا تھا اور نئے این ایف سی ایوارڈ کی بات کی گئی تھی۔
نہ صرف میثاق جمہوریت میں اسحاق ڈار کا کردار تھا بلکہ میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی دبئی میں ملاقاتیں بھی اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر ہوا کرتی تھیں۔ شاید اسی رشتے کا پاس تھا کہ اسحاق ڈار بلاول بھٹو کی تنقید کا جواب دینے سےگریز کرتے رہے تھے۔
ن لیگ میں وہ حلقہ جو شہبازشریف کے برعکس نوازشریف کے قریب ہے، وہ بھی یقینا اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ دیکھنے کا متمنی ہوگا۔ اپنے والد کے بااعتماد ترین ساتھی ڈار سے بہتر شخصیت بظاہر مریم نواز کیلئے بھی کوئی اور نہیں۔
مریم نواز کیلئے بحثیت وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی دکھانا،خصوصاً ترقیاتی کام کرنا بھی اُسی وقت آسان ہوگا جب مرکز انہیں بروقت اور مناسب فنڈز جاری کرے گا۔ پنجاب میں ناکامی ہوئی تو ن لیگ کی اپنے گڑھ سے جڑیں اکھڑ سکتی ہیں۔
دیگر کے مقابلے میں اسحاق ڈار اس لیے بھی صف اول میں ہیں کیونکہ ملکی معیشت کی نبض پر ان کا 2 دہائیوں سے ہاتھ ہے۔ ڈار کیلئے چین سے بات چیت بھی آسان ہے اور امریکا سمیت آئی ایم ایف سے بھی۔
یہ الگ بات ہے کہ پچھلی بار شہبازشریف نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے بطور وزیراعظم ملاقات کرلی تھی جس سے تاثر ابھرا تھا کہ آئی ایم ایف کی ڈیل شہبازشریف کی وجہ سے ممکن ہوئی جبکہ اس ڈیل میں خود پاکستان میں امریکا کے سفیر ڈونلڈ بلوم کا بھی اہم کردار تھا۔
اسحاق ڈار کا پاکستان کے عرب ڈونرز سے بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ عہدے پر نہ ہونے کے باوجود سعودی عرب میں انہیں وزیر خزانہ جیسا پروٹوکول دیا جاتا رہا ہے۔
ابھی یہ تو واضح نہیں کہ اسحاق ڈار کس طرح ممکن بنائیں گے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل بھی ہو، نجکاری بھی ہو اور منہگائی پر قابو بھی پا لیا جائے تاہم ماضی کے ریکارڈ کی بنا پر تصور کیا جاسکتا ہے کہ اسحاق ڈار کو پانچ سال ملے تو وہ ن لیگ کے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ن لیگ نے اپنے انتخابی منشور میں ایک سال میں منہگائی میں دس فی صد کمی لانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ بھی کہا تھا کہ چار سال میں منہگائی کی شرح چار سے چھ فی صد پر لائی جائےگی۔ اسی منشور میں نوازشریف نے حکومت کی پانچ سالہ مدت کے دوران ایک کروڑ ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے، ٹیکسوں میں چھوٹ، توانائی بحران کے خاتمے کے خواب بھی دکھائے تھے۔
منشور میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بھارت سے تعلقات بہتر کیے جائیں گے مگر ساتھ ہی شرط رکھی گئی تھی کہ پہلے بھارت مقبوضہ کشمیر میں کیا گیا یکطرفہ اقدام واپس لے۔یہ الگ بات ہے کہ مودی سرکار ہی نہیں، اگر کانگریس بھی برسراقتدار آجائے تو اس کیلئے بھی ایسا کرنا اب ناممکن ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اتحادی حکومت نے میثاق معیشت تیار کیا تو اس کی بنیاد میثاق جمہوریت پرہوگی یا نہیں؟ میثاق جمہوریت میں تو لکھا گیا تھا کہ حل طلب تنازعات کی وجہ سے بدگمانیوں کو پیچھے چھوڑ کر بھارت اور افغانستان کےساتھ تعلقات میں بہتری کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔
ایسے میں یہ وقت ہے کہ اسحاق ڈار پریس کانفرنس کریں تاکہ واضح ہو کہ معیشت سدھارنے کیلئے ان کی حکمت عملی اور ن لیگ کیلئے میثاق معیشت کی بنیاد کیا ہوگی؟
الیکشن نتائج سے یہ تو عیاں ہے کہ پی ٹی آئی کا سحر توڑنا ہے تو اس کیلئے معیشت کی غیر معمولی بہتری کا منتر ڈھونڈنا ہوگا ورنہ اگلے الیکشن میں اتحادیوں کو اس سے کہیں عبرتناک شکست کیلئے تیار رہنا چاہیے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔