Time 19 فروری ، 2024
پاکستان

سینیٹ نے ریپ اور سنگین جرائم پر سرعام پھانسی سے متعلق بل کی تحریک مسترد کردی

سینیٹر مشتاق خان کے بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 14 اور مخالفت میں 24 ووٹ آئے— فوٹو:فائل
سینیٹر مشتاق خان کے بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 14 اور مخالفت میں 24 ووٹ آئے— فوٹو:فائل

سینیٹ نے جنسی زیادتی کی ملزمان کو سر عام پھانسی دینے کے سینیٹر مشتاق کی فوجداری قوانین میں ترامیم کا بل پیش کرنے کی تحریک کثرت رائے سے مسترد کر دی۔

سینیٹر مشتاق احمد نے فوجداری قوانین میں ترمیم کا بل پیش کیا کہ ریپ کے مجرموں کو سر عام پھانسی دی جائے۔

سینیٹ نے بل پیش کرنے کی تحریک مسترد کر دی۔ بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 14 اور مخالفت میں 24 ووٹ آئے۔

پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ سر عام پھانسی معاشرے میں بربریت اور انتشار پھیلاتی ہے، جنرل ضیا کے دور کے سائے دوبارہ ملک میں نہیں دیکھنے، سرعام پھانسی نے کبھی ریپ کو نہیں روکا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ سرعام پھانسی سے ہم 12 ویں صدی میں کھڑے ہوں گے، یہ اکیسویں صدی کے معاشرے کو زیب نہیں دیتا، یہاں پھر ہر جرم پر سرِعام پھانسی ہو گی، سر عام پھانسی سے جرم نہیں رکے گا۔

ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہمارے بارے میں دنیا میں منفی تاثر پایا جاتا ہے، جرائم پر کڑی سزا ضرور ملنی چاہیے، پھانسی کو پھانسی گھاٹ تک رہنے دیں ، اسے فوارا چوک یا میلوڈی چوک تک نہیں لائیں۔

ان کا کہنا تھاکہ دین میں مرے شخص کی تضحیک کا پہلو کم ملتا، دنیا میں کہیں ایسا تماشہ نہیں ہے، سر عام پھانسی مثبت تاثر نہیں کائے گا، معاشرے میں سفاکی بڑھے گی، سر عام پھانسی کا اسلامی ملک میں تصور نہیں ملتا۔

سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ قانون میں سزا موت موجود ہے، سر عام پھانسی کا بل کسی طرح مناسب نہیں ہے، سر عام پھانسی نہیں ہونی چاہیے۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ چوراہوں پر پھانسی دینے سے احترام انسانیت ختم ہوتا ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ موجودہ قانون میں سزا موت ہے، اس کی ہم حمایت کرتے ہیں، سر عام پھانسی آج کل کے زمانے اور معاشرے میں اسکی ضرورت نہیں۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کو یقنی بنائیں تو پھانسی کی نوبت نہیں آتی، آپ مجرموں کی اصلاح کریں۔

سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ یہ بل معاشرے کو مزید ظالم بناتا ہے جبکہ شہادت اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے کہا کہ سر عام پھانسی انسان کی وقار کے خلاف ہے۔

سینیٹر کامل علی آغا نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں سرعام پھانسی ہے، امریکا میں سزائے موت انجیکشن لگا کر دی جاتی ہے اور اس کی ویڈیو پبلک کی جاتی ہے،  سعودی عرب میں سر عام سر قلم کیا جاتا ہے، وہاں جرائم کی شرح اور اپنے ملک میں دیکھ لیں جس شخص نے یہ گھناؤنا جرم کیا اس کی کیا کوئی وقار ہے۔

سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ یہ بل ایک بڑے مسئلے کا حل ہے، سعودی عرب میں ریپ بہت کم اور مغربی ممالک میں بہت زیادہ ہے، یہ جرم میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے وہ ممالک جہاں سرعام پھانسی ہے وہاں جرم کی سزا کم ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ کہتے ہیں سزا عام سے سفاکی بڑھے گی، سفاکی تو بڑھ چکی ہے، میں تو سر عام پھانسی دیکر سفاکی کو روکنا چاہتا ہوں، موٹر وے ریپ کیس کی خاتون، زینب کا وقار نہیں تھا؟ ریپ کرنے والے کی dignity ہے، سر عام پھانسی رکاوٹ کا کام کرے گا، اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومت میں آپ 5 سر عام پھانسی دے دیں، پھر مزید سر عام پھانسی کی ضرورت نہیں پڑے گی، یورپ اور امریکا سے نہ ڈریں۔

مزید خبریں :