22 فروری ، 2024
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مخلوط حکومت بنانے کا معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدےکے نکات کی تمام تفصیل ابھی تک تو سامنے نہیں لیکن یہ فیصلہ ہو گیا ہےکہ آصف علی زرداری صدر ہوں گے، میاں شہبازشریف وزیراعظم بنیں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ن لیگ کا ہو گا،چیئرمین سینٹ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہو گا۔ دو گورنر ن لیگ اور دو گورنرز کا تعلق پی پی پی سے ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہو گی لیکن ن لیگ کی حکومت کی قومی اسمبلی میں حمایت جاری رکھے گی جس کا مقصد شہباز حکومت کی ناکامیوں کی صورت میں تمام ملبہ ن لیگ پر ڈالنا ہے۔ اب ن لیگ ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے کہ حکومت میں شامل ہونے کی صورت میں متحدہ کو کیا کیا ملے گا۔
پہلے تو اس بات کا افسوس ہے کہ جس انداز میں گزشتہ رات پریس کانفرنس کی گئی اُس میں تاثر یہی سامنے آیا کہ جتنے دن دونوں سیاسی جماعتیں حکومت سازی کیلئے بات چیت کرتی رہیں اُس کا فوکس آپس میں اعلیٰ حکومتی عہدوں کی بندربانٹ پر ہی رہا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر دونوں سیاسی جماعتیں یہ بتاتیں کہ پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے اور بہتر انداز حکمرانی دینے کیلئے وہ کیا کچھ ایسا کریں گے جو ماضی سے مختلف ہو اور جس کی بنا پر ملک اور عوام کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ہو۔ بہرحال یہ فیصلہ ہوگیا کہ ن لیگ کا وزیراعظم بنے گا۔
پنجاب میں بھی ن لیگ کی طرف سے مریم نواز وزیراعلیٰ بنیں گی۔ انتہائی متنازع الیکشن کے بعد جس انداز میں جو جو سیاسی جماعتیں حکومتیں بنانے جا رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ سیاسی خطرات ن لیگ کیلئے ہیں۔ فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ حکومت میں ن لیگ کا یہ آخری چانس ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ ن لیگ کا بہت بڑا اور بہت مشکل امتحان ہے جس میں ناکامی کی صورت میں واقعی ن لیگ کا یہ آخری چانس ہو سکتا ہے۔ پہلے تو وزیراعظم کیلئے شہباز شریف اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے مریم نواز کے نام کا اعلان ن لیگ کیلئے اُس تنقید کی وجہ بنا جس کے مطابق وزارتِ عظمیٰ اور وزارتِ اعلیٰ کیلئے شریف فیملی سے باہر کسی کو قابل نہیں سمجھا جاتا۔ پہلے ایک بھائی وزیراعظم اور دوسرا بھائی وزیراعلیٰ بنتا رہا۔
نواز شریف کی نااہلی کی بنا پر شہباز شریف وزیراعظم بنے اور اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوا دیا۔ اب پھر چچا وزیراعظم اور بھتیجی وزیراعلیٰ بننے جا رہے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس کو عوام میں انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے ۔ ن لیگ کے اندر بھی اس کے خلاف بات کی جاتی ہے لیکن کسی کی جرات نہیں کہ وہ شریف فیملی کے سامنے یہ بات کرے۔
بہرحال اب ن لیگ کے شہباز شریف وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب بننے جا رہی ہیں۔ ان کے سامنے پہاڑ جیسے مسائل ہیں، ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، عوام کا مہنگائی سے بُرا حال ہے، حکومتی ادارے اور سرکاری افسران اپنے فرائض نبھانے سے عاری ہیں جس کی وجہ سے عوام دھکے کھانے پر مجبور ہیں، رشوت اور سفارش عام ہیں، خراب طرزحکمرانی کی وجہ سے حکومتی ادارے کھربوں کا نقصان سالانہ کرتے ہیں، ٹیکس کوئی دیتا نہیں، قرضے ہیں کہ خطرناک حد تک بڑھ چکےہیں۔ماضی میں جو طرز حکمرانی ن لیگ کا رہا (بے شک وہ دوسروں سے بہتر بھی ہو) ویسا ہی معاملہ اگر آگے چلا تو پھر پاکستان کا بڑا نقصان ہو گا اور ن لیگ سیاست کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔
اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ بڑے فیصلے نہ کیے جائیں، عوام کو سنگ دل سرکاری اداروں اور افسران کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، افسر شاہی کو سیاسی بنیادوں پر ہی چلایا جائے۔ بہترین طرز حکمرانی اور مشکل معاشی فیصلے ہی پاکستان کو مشکلات سے بچا سکتے ہیں۔ جہاں تک طرز حکمرانی کا تعلق ہے تو ن لیگ کو یہ سوچنا چاہیے کہ اُن کی بار بار حکومتوں کے باوجود کسی بھی سرکاری محکمہ کی کارکردگی کیوں بہتر نہیں ہوئی۔ صرف سڑکیں، موٹرویز، میٹروز بنانے سے نہیں بلکہ عوام کو بہترین سروس ڈیلوری اور سرکاری محکموں سے اپنا اپنا کام بغیر سفارش اور رشوت کے کروانے کانام گڈگورننس ہے، جو ماضی میں ن لیگ سمیت کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں رہی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔