25 مارچ ، 2024
مغلِ اعظم ، جلال الدین اکبر بادشاہ کے زمانے میں ہندوستان دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل تھا۔ اکبر کے والدنصیر الدین ہمایوں کے زمانے میںسلطنت کا نظام ابتر تھا۔ اکبر نے اپنے زمانے میں بہت سی اصلاحات کیں جن میں سے ایک راجہ ٹوڈرمل کو وزیر خانہ بنانا تھا۔
پنجاب کے شہر لاہور کا یہ کھتری بے مثال دانش کا حامل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ ٹوڈرمل نے ہی پہلی بار زرعی زمینوں کا بندوبست کیا، ڈاکومینٹیشن کی اور ہندوستان کی آمدن دنیا بھر کے تمام ممالک سے بڑھ گئی ،اسی لئے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتے تھے۔ مغل تاریخ پر اتھارٹی رکھنے والے ابراہیم ارالے کے مطابق جہانگیر کی دولت برطانیہ کے بادشاہ سے 16گنا زیادہ تھی۔
اب نہ مغلیہ دور ہے اور نہ بادشاہوں کا زمانہ، مگر معاشی حالت ہمایوں بادشاہ کے دور جیسی ہے۔ ہمایوں فلکیات کی سائنس پر یقین رکھتا تھا اپنا ہر فیصلہ ستاروں کی چال کے مطابق کرتا تھا، حتیٰ کہ جاں بحق بھی اپنی رصد گاہ کی سیڑھیوں سے ہی گر کر ہوا ۔اسے بتایا گیا کہ آج ستارے غضب کی چال چلنے والے ہیں، اسے کیا پتہ تھا کہ یہ چال اس کی موت کا اشارہ تھی۔ بہرحال معیشت کی بحالی کا فیصلہ اکبر کے زمانے میں ہی ہوا اور شیر شاہ سوری کے زمانے میں قلعہ روہتاس کوتعمیر کرانے والے راجہ ٹوڈرمل کے نام قرعہ فال نکلا اور پھر ٹوڈرمل نے ہندوستان کی معاشی تقدیر بدل ڈالی۔ ہمیں بھی 76 سال سے راجہ ٹوڈرمل کی تلاش ہے کبھی ہم امریکہ سے ٹوڈرمل لاتے ہیں اور کبھی ہم پاکستان میڈ وزیر خزانہ بناتے ہیں مگرکوئی کوشش کامیاب نہیںہو پاتی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے قیام کے پہلے سال ملک غلام محمد نے ایسا جادو چلایا تھا کہ پاکستانی روپیہ اوورویلیو ہوگیا اور ہندوستانی روپیہ ڈی ویلیو۔ وزیر اعظم نہرو کو دھمکی دینا پڑی کہ پاکستان اپنا روپیہ ڈی ویلیو کرے وگرنہ بھارت حملہ کردے گا۔ یہ بھولی بسری کہانی ہے، کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ؟ اس کا بھی علم نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم اپنی معیشت قرضوں اور امدادوں پر ہی چلاتے رہے ہیں ،ہم آج تک اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔
موجودہ حکومت نئے وزیر خزانہ کےطور پر پرانے اور منجھے ہوئے بینکار مگر نئے سیاسی چہرے محمد اورنگزیب کو لے کر آئی ہے۔ اورنگزیب بھی ٹوڈرمل کی طرح خطہ پنجاب کے فرزند ہیں۔ ٹوڈرمل کھتری تھے ، اورنگزیب ٹوبہ ٹیک سنگھ کے معزز ارائیں خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج خلیل الرحمٰن رمدے ان کے چچا اور سسر ہیں۔ توقع یہی ہے کہ وہ زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہوں گے اور انہی کومدنظر رکھ کر پالیسیاں بنائیں گے۔
میں ذاتی طور پر مالیاتی امور کے بارے میں بہت کم علم رکھتا ہوں مگر ایک عام آدمی کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ ایک وزیر خزانہ کا کام یہی ہے کہ آمدنی کو بڑھائے اور اخراجات کو کم کرے۔ بدقسمتی سے یہ نہیں ہو پارہا۔ اسی طرح درآمدات کم ہونی چاہئیں اور برآمدات زیادہ،تاہم 76 سال میں ہم ایسی پالیسیاں ہی نہیں بنا سکےجس سے یہ توازن ہمارے حق میں ہو جائے۔
مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھم نہیں رہا اور دور دور تک اس کےتھمنےکاامکان بھی نہیں۔ کاروبار ٹھپ ہوتے جا رہے ہیں۔ 22فیصد شرح سود کے ساتھ سب نے کاروبار چھوڑ کر بینکوں میں پیسے جمع کرا دیئے ہیں اور سود سے عیاشی کر رہے ہیں۔ بینک امیر ہو رہے ہیں اور سرمایہ کاری ختم ہو رہی ہے۔ پہلے لوگ کاریں لیز پر لے لیتے تھے اب یہ سہولت بھی 22فیصد شرح سود کی وجہ سے تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس بھی دیتا ہےاور اس کیلئے ریلیف کا کوئی ریگولر طریقہ بھی متعین نہیں ہے۔ پاکستان میں یوتھ کی تعداد دنیا کے ہر ملک سے نسبتاً زیادہ ہے۔ اس کیلئے کوئی خصوصی پروگرام بنانا چاہیے، بڑھتی ہوئی آبادی کا ٹائم بم ٹک ٹک کر رہا ہے مگر کوئی حکومت اس آواز کو سننے پر تیار نہیں، اس قدر آبادی کےساتھ آپ 12 فیصد شرح نمو کے ساتھ بھی ترقی نہیں کرسکتےجاری شرح نمو تو 3،4یا6تک جاتی ہے۔ یہ چند بڑے بڑے مسائل ہیں جن پر فوری توجہ دینی چاہیے ، یہ ٹھیک ہو گئے تو ہم درست سمت میں چل پڑیں گے۔
پاکستان کی تاریخ کےپہلے گیارہ سال میں مالیات کا شعبہ انگریز کی تربیت یافتہ سول بیوروکریسی کے ذمے رہا۔ چودھری محمد علی اور ملک غلام محمد شروع ہی سے امریکہ کی طرف دیکھتے رہے، ساری حکومت کو امید تھی کہ امداد اور قرضہ وہیں سے مل سکتا ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے امریکہ کا دور کیاتو انہیں آئرن مین یعنی مرد آہن کا خطاب ملا، کراچی کے تاجراُن سے اتنے خوش ہوئے کہ انہیں ’’محافظ ملت‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔
ان گیارہ برسوں میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، ہر حکومت کو برطرف کیے جانے کے فرمان میں یہ لکھا نظر آتا کہ غذائی اور معاشی بحران کی وجہ سے اسے رخصت کیا جا رہا ہے۔ ایوب خان کا مارشل لا آیا تو ورلڈ بینک کے ماہرین کا دور شروع ہوگیا ، محمدشعیب وزیر خزانہ بنے، وہ خالصتاً سرمایہ دارانہ نظام کے حامی تھے، کابینہ میں موجود نوجوان بھٹو سرمایہ دارانہ نظام کے سخت خلاف تھے، دونوں میں شدید مباحث ہوتے تھے۔
بھٹو غریبوں کی بات کرتے تھے اور محمد شعیب سرمایہ داروں اور تاجروں کیلئےسازگار فضا کے حق میں دلائل دیتے تھے۔ جنرل یحییٰ خان آئے تو ورلڈ بینک ہی کے ایم ایم احمد کوپاکستان کا نائب صدر بنا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا تو سوشلسٹ ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ بنے۔ بہت سی صنعتیں اور بینک قومیا لئے گئے۔
شروع میں غذائی قلت ہوئی راشن ڈپو بنے مگر بھٹو کے آخری دنوں میں معیشت بہتری کی طرف گامزن ہوئی،بھٹو کے دور میں عام آدمی کوپاسپورٹ کی سہولت ملی اور لوگ خلیج اور یورپ جانے لگے جس سے دیہات اورقصبوں کا معیار زندگی بلند ہوا، کچے گھر پکے ہوگئے، فریج، ٹی وی اور ٹیپ ریکارڈر آگئے، کھانے پینے کی اشیاء میسر آنے لگیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں غلام اسحاق خان، سرتاج عزیز اور ڈاکٹر محبوب الحق خزانہ کے امور چلاتے رہے۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے 22 خاندانوں کے دولت سمیٹنے کا نعرہ لگایا تھا انہوں نے مڈل کلاس کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ پاکستان بننے سے پہلے زمیندار اور جاگیردار سب سے امیرہوتے تھے، 70سال میں زمیندار غریب ہوگئےتاجر اور صنعت کار ان سے کہیں آگے نکل چکے ہیں، زراعت بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ تاجر پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہیں، سارا بوجھ صنعت کاروں اور تنخواہ دار طبقے پر ہے، ایسے میں ملک کیسے چل سکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ن لیگ کا ووٹ بینک ہی تاجر ہیں اگر وہ تاجروں پر ٹیکس لگائے گی تو اس کی مقبولیت میں مزید کمی ہوگی۔ وزیر خزانہ اورنگ زیب اور وزیر اعظم کا اصل امتحان بھی یہی ہے کہ وہ ٹوڈرمل کی طرح ملک کو خوشحال بنائیں مگر ٹوڈرمل کی طرح مغرور اور بے پروا نہ ہوں کہ انہیں عدم مقبولیت کا سامنا کرنا پڑے اور پھر وہ اپنی مالی اصلاحات مکمل بھی نہ کرسکیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔