03 جولائی ، 2024
سپریم کورٹ نے 12 سال کے بعد سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کو رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قراردیتے ہوئے ملزم کو رہا کرنے کا فیصلہ جاری کردیا۔
فیصلے میں مجرم محمد اعجازعرف بِلے کی سزائے موت اور شریک مجرمہ نسیم اخترکی عمرقید کی سزا کالعدم قرار دے دی۔ حکم نامے کے مطابق محمد اعجاز پر2010 میں شریک مجرمہ کے شوہر کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا، مقدمہ کے مطابق دونوں مجرمان کے درمیان ناجائزتعلقات تھے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مدعی مقدمہ کے مطابق دونوں مجرمان مقتول کو الیکٹرک شاک دیتے پائے گئے تھے، مدعی مقدمہ نے رنگے ہاتھوں پکڑا تو مجرم محمد اعجاز نے فائرنگ شروع کردی۔
حکم نامے کے مطابق مقدمہ کے مطابق محمد اعجازکی فائرنگ سے شریک مجرمہ کا شوہرجاں بحق ہوگیا، وکیل صفائی کے مطابق خودکشی کے کیس کو قتل قرار دیاگیا، وکیل صفائی کے مطابق دونوں مجرمان میں کوئی ناجائز تعلق ثابت نہیں ہوتا، وکیل صفائی کے مطابق مقتول کو مدعی نے خاندانی وراثت سے حصہ نہیں دیا جس پر مقتول نے خودکشی کرلی، پراسیکیوٹر کے مطابق مدعی مقدمہ وقوعہ کا عینی شاہد ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوٹر کے مطابق دونوں مجرمان مقتول کو ختم کرنا چاہتے تھے، سپریم کورٹ نے ثبوتوں کا بغور جائزہ لیا، بیانات اور ثبوتوں میں تضادات ہیں، مدعی مقدمہ کے مطابق مقتول نے اسے مجرمان کے ناجائز تعلقات کابتایا، مدعی مقدمہ خود سے مجرمان کے ناجائز تعلقات کا عینی شاہد نہیں، بیانات میں تضاد ہے، مقتول نے اپنی اہلیہ اور محمد اعجازعرف بِلا کےخلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا تھا۔
حکم نامے کے مطابق حیرت ہوئی کہ ماتحت عدلیہ نے بغیر کسی ثبوت کے ناجائز تعلقات قرار دے دیا، وقوعہ دن کی روشنی میں ہوا لیکن کسی نے مدعی مقدمہ کی کہانی کی حمایت نہیں کی، ریکارڈ کے مطابق مجرمہ اپنے شوہر کو خاندانی وراثت میں سے حصہ لینے کا پریشر ڈالتی تھیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مجرمہ کے چاربچے تھے جن کا والد دنیا میں نہیں رہا، بچوں کی پرورش کے لیے والدہ کے پاس ہونا ضروری ہے، بچوں سے ماں کو بھی لیگل سسٹم کے ذریعے جدا کردیاگیا جس سے بچوں پرذہنی اثر پڑرہاہے، محمد اعجازعرف بِلا اور نسیم اخترکو کیس سے بری کیا جاتا ہے۔