Time 13 جولائی ، 2024
بلاگ

کھچڑی پکنے لگی؟؟

شہباز حکومت کا ہنی مون پیریڈ گزر چکا اسلئے اب صحافیانہ اور ناقدانہ جائزے کا جواز پیدا ہو گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس حکومت کو کوئی بڑا سیاسی چیلنج درپیش نہیں، یہ بھی درست کہ اسے مقتدرہ کی مکمل حمایت حاصل ہے ،یہ بھی صحیح کہ طاقتوروں اور تحریک انصاف کی کشیدگی کی وجہ سے اپوزیشن اپنی پریشانیوں میں گھری ہے، یہ کہنا بھی درست کہ فی الحال فیصلہ سازوں کے پاس کوئی متبادل انتظام بھی موجود نہیں۔ ان سارے مثبت اشاروں کے باوجود دور کہیں دھیمی آنچ پر کھچڑی پکنے لگی ہے۔

وہ ’’خاص الخاص‘‘ جواِن کی محنت اور مہارت کا مداح ہے اسے شکوہ یہ ہے کہ فیصلوں کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ سب مانتے ہیں کہ وزیر اعظم منہ اندھیرے، اس وقت جاگ جاتے ہیں جب دوسرے لوگ ابھی سوئے ہوتے ہیں، اٹھتے ہی وہ واٹس ایپ پر احکامات جاری کرنا شروع کردیتے ہیں، انہیں علم ہے کہ صبح سویرے اٹھنے والے افسران اور سیاستدان کون سے ہیں، سب سے پہلے انہیں بلاتے اور ان سے مشورہ اور میٹنگز کرتے ہیں۔ 

آٹھ بجے تک انکا ماتحت عملہ اور سیکرٹریٹ بھی تیار ہو جاتا ہے اور پھر فل ٹائم ورکنگ شروع ہو جاتی ہے۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں گورننس کی باریک تفصیلات کا علم ہے، سرکاری اجلاسوں میں وہ جو سوالات اٹھاتے ہیں اور اعتراضات کرتے ہیں اس سے انکی اپنے کام پر مکمل کمانڈ ظاہر ہوتی ہے۔ دوپہر کے لنچ کے بعد وہ گھنٹہ بھر کی نیند لیتے ہیں اور پھر سے تازہ دم ہو کر رات ساڑھے دس بجے تک سرکاری کام کاج میں منہمک ہو جاتے ہیں، وہ بہت کم سوتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کرتے ہیں، ای گورننس کے ماڈل پر چلتے ہوئے انہوں نے ہر ٹاسک کا جواب ایپ (APP)کے ذریعے لینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

 واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے وہ مختلف محکموں اور سیکرٹریوں کی روزانہ کارکردگی کا اپ ڈیٹ لیتے رہتے ہیں۔ ان ساری خوبیوں کے باوجود خاص الخاص کو انکی حکومت میں کئی بڑی خامیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔

خاص الخاص کی رائے ہے کہ وزیر اعظم کی محنت و مہارت کے باوجود عوامی فلاح اور معاشی بہتری کے حق میں نتائج نہیں نکل رہے۔ اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ چار یا پانچ گھنٹے کی طویل اور بورنگ میٹنگ کے بعد کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا، فیصلے بار بار ملتوی کئے جاتے ہیں، ان میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ خاص الخاص کہتے ہیں کہ وزیر اعظم ہر چیز کی تفصیل پوچھتے ہیں مگر فیصلہ ٹال دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ کوئی اور یا بالاتر حلقے کریں یا پھر بڑے بھائی کی طرف سے کوئی ہدایت آ جائے۔

کوئی غلط نہ سمجھے، خاص الخاص بے وردی ہے یہ بے جان ہے مگر انجان نہیں، معاملات پر کڑی نظر رکھتا ہے اسکی چھٹی حس اس قدر تیز ہے کہ آنیوالے واقعات کو پہلے سے ہی پڑھ لیتا ہے، باخبر اس قدر ہے کہ اکثر دلوں میں چھپی خفیہ باتیں بھی نکال لیتا ہے، کایاں اتنا ہے کہ پکڑائی نہیں دیتا، بارسوخ اس قدر کہ سرکار، دربار اور بڑے سے بڑے طاقتور تک رسائی رکھتا ہے۔

خاص الخاص یہ ماننے کو تیار نہیں کہ وزیر اعظم کے پاس اختیار اور مواقع کی کمی ہے وہ یہ بھی نہیں مانتا کہ مقتدرہ کی مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ فیصلہ کرنا دشوار ہے، وہ سمجھتا ہے کہ وزیر اعظم کرنا چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر وہ کچھ بھی کر نہیں پا رہے۔ خاص الخاص سمجھتا ہے کہ مقتدرہ جس قدر حمایت ن لیگی حکومت کو دے رہی ہے حکومت جواباً مقتدرہ کو اس قدر عوامی اور سیاسی حمایت دینے اور دلوانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ 

اسکا گلہ ہے کہ نون کو گلے کا ہار بنا کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا گیا مگر وہ مقتدرہ کی راہ کے کانٹے چننے میں ابھی تک ناکام ہے۔ خاص الخاص کا اعتراض ہے کہ پے در پے اجلاسوں اور دن رات کی کوششوں کے باوجود ڈیلیوری ہوتی نظر نہیں آ رہی، خاص الخاص کو یہ بھی گلہ ہے کہ نونی حکومت کا کوئی سیاسی بیانیہ نہیں، معیشت کی بحالی کا منتردرست سہی مگر جب تک معیشت کی بہتری عوام تک پہنچے گی اس وقت تک مسائل کا انبار کھڑا ہو چکا ہوگا۔ سیاسی بیانیہ ہوتا تو اپوزیشن کا کچھ توڑ ممکن تھا مگر نون کے سیاسی بیانیے کی عدم موجودگی میں اپوزیشن ہی اکیلی سیاسی میدان میں دندنا رہی ہے۔

خاص الخاص کوئی بندہ نہیں نہ اسکا حکومت سے کوئی تعلق ہے، اسے میری چڑیا سمجھ لیں، فال والا طوطا کہہ لیں، لٹو خیال کر لیں یا بھنبیری جان لیں، یہ میرا وہ مخبر ہے جو مجھے ’’پارٹی ازاوور‘‘ اور ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ جیسی باتیں وقت سے پہلے بتا دیتا ہے، میری یہ بھنبیری منطق، خبر، تجزئیے اور ناقدانہ جائزے کے معیارات کو سامنے رکھ کر خبر نکالتی ہے۔

خاص الخاص کو شہباز شریف سے بہت ہمدردی ہے لیکن اب وہ ماننے لگا ہے کہ نون لیگ میں فیصلہ کن حیثیت نواز شریف کو ہی حاصل ہے، وہی بڑے فیصلے کرتے ہیں اب جبکہ وہ نظام کا حصہ نہیں تو چھوٹے بھائی سے بڑے فیصلے ہو نہیں پا رہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف جان بوجھ کر نواز شریف کی طرف دیکھتے ہوں تاکہ سیاست میں انکا امام، بھائی یہ تمام فیصلے کرے تاکہ کہیں غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے۔ خاص الخاص کا خیال ہے کہ فرسٹریشن بڑھ رہی ہے فیصلوں میں دیر ہو رہی ہے، ڈیلیوری نہیں ہو رہی، اسی لئے کھچڑی پک رہی ہے، معاملات نہ سدھرے تو آنے والے دنوں میں دوریاں بڑھنے لگیں گی۔

خاص الخاص نباض ہے، دلوں کے بھید بھی جان لیتا ہے اسے شکوہ ہے کہ مقتدرہ اپوزیشن کے سیاسی اور ذاتی نشانے پر ہے، نونی حکومت مقتدرہ کے خلاف چلائی جانیوالی مہم میں گونگی بنی بیٹھی ہے، مقتدرہ کے بڑوں پر ذاتی حملے ہو رہے ہیں اور گالیاں تک دی جا رہی ہیں، نونی حکومت اپوزیشن کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بجائے ان سے ہاتھ ملانے کیلئے ترسی جا رہی ہے، خاص الخاص کو خاص کر گلہ ہے کہ کپتان خان نے جیل میں میلہ لگایا ہوا ہے ہر روز وہاں مقتدرہ کیخلاف منصوبہ بندی ہوتی ہے اور سیاسی حکومت نے کپتان خان کو جیل میں 8کمرے دے رکھے ہیں۔ تنقید کا نشانہ مقتدرہ ہے حالانکہ اس کا قصور صرف نونی حکومت کی حمایت ہے لیکن نونی مقتدرہ پر ہونے والی تنقید پر خاموش رہ کر کیا پیغام دیتے ہیں؟۔

خاص الخاص نے اپنے تبصرے کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ کھچڑی پک رہی ہے مگر چیف شیف دل کا صاف اور کومٹ منٹ کا پکا ہے وہ دو غلا نہیں ہے اسلئے کھچڑی کے نیچے آنچ کو اسکی طرف سے بڑھائے جانے کا امکان نہیں، خود نونی حکومت کو سو فیصد یقین ہے کہ حکومت ساز کچن کا چیف شیف نہ ان کیخلاف سازش کریگا نہ اپوزیشن سے خفیہ ملاقاتیں کریگا اور نہ ہی نونی حکومت کو کبھی غیر مستحکم کرنے کی کوشش کریگا۔

 اسلئے فی الحال نونی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن نونی حکومت نے خاص الخاص کے شکوؤں کا تدارک نہ کیا تو عدم اعتماد بڑھ جائیگا۔ خاص الخاص کا خیال ہے کہ شہباز شریف میں بہت لچک ہے، وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ اگر انہیں گلے شکوؤں کا اشارہ ملا تو وہ اپنی گورننس میں بہتری لے آئینگے۔

 خاص الخاص نے نوٹ کیا ہےکہ وزیر اعظم شہباز شریف حالیہ دنوں میں کبھی وزراء پر برس رہے ہیں اور کبھی بیورو کریسی پر غصہ کر رہے ہیں، کہیں وہ کرپشن کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں اور کہیں ایف بی آر کی استعداد کار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ خاص الخاص کے خیال میں یہ اصلاح احوال کی کوششیں ہیں تاکہ کھچڑی کے نیچے لگی دھیمی آنچ کا ایندھن ہی بجھا دیا جائے، نہ آگ ہو گی تو نہ دھواں ہوگا اور نہ کھچڑی مکمل طور پر پک پائے گی....!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔